Wednesday 30 November 2016

کمہار کا کام Investigation Report Part-II



Investigation Report Part-IISumbal Nazir, Asqa Qureshi, Narmeen Khan
     سمبل نزیر   اقصیٰ قریشی
نرمین خان


Please read what is investigative reporting is
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 
It looks like article. In reporting always source is quoted. 

رول نمبر 13 MA Previous
کمہار کا کام ماضی میں
اقصیٰ قریشی 

کمہار کا مطلب ہے مٹی کے برتن بنانے والے ۔کے برتن استعمال کرنا ہمارے نبی کی سنت ہے اور اسی طرح کمہار کا کام بھی حضور پاک کے دور سے چلتا ہوا آرہا ہے س صدیوں کی داستان میں کمہار کئی تہذیبوں کی بنیاد بھی رکھتا آیا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان کو مضبوط کرتے چلے آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کمہار انسانی زندگی کا پہلا فنکار تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ تاریخ کا پہلا تاریخ تھان بھی۔ کوئی 100سالوں سے کمہار تخلیق کی وہی منزلیں طے کرتے دکھائی دیتے تھے جو انسان کے اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے ، مٹی پانی اور آگ کی تخلیق کی تھی ۔کمہار کا کام بھی چیزوں کو نئے وجود میں ڈھالنا ہوتا تھا اور اسی کام میں ڈھلتے ڈھلتے وہ اپنی ساری زندگی اسی کام میں گزار دیتے تھے ۔
کمہار لوگ بہت ذہین ہوتے تھے کہ وہ بغیر کسی کمپیوٹر ، پیچیدہ مشین اور نفیس اوزار کے ان کے صدیوں کے تجربے میں دھلے ہاتھ مٹی کے وہ خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے تھے جو کہ مشینوں اور کمپیوٹروں پر رکھے ہاتھ بھی دم بھر کو بے جان ہوجاتے تھے کمہار بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے گھر بہت کچے کچے ہوتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد وہ صرف چند پیسے کماتے تھے ماضی میں مٹی کے برتن کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا ۔
کیونکہ ماضی میں پلاسٹک اور شیشہ کے برتن نہیں ہوتے تھے اسی لیے پہلے کے لوگوں کا رجھا ن زیادہ تر مٹی کے بنے ہوئے برتنوں پر ہوتا تھا وہ کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتن کا استعمال کرتے تھے اور مٹی کے برتن میں بنا ہوا کھانا بہت ہی لذیذ بنتا تھا ، مٹی کے برتن بنانے کے لیے صاف مٹی کی ضرورت ہوتی تھی مٹی کے برتن اور دوسری اشیاء خالص قسم کی چکنی مٹی سے تیار کیے جاتے تھے ان میں کسی قسم کی دوسری اشیاء استعمال نہیں ہوتی تھی کمہار کے کام کرنے اور رہائش کی جگہ الگ ہوتی تھی انہوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں مٹی کے کچے گھر بنا کر اپنی دنیا بسائی ۔مٹی کا برتن چھ دن میں تیار ہوتا تھا جس میں ایک دن مٹی کا برتن بنانے ، دو دن اس کو پکانے اور تین دن دھوپ میں سکھانے میں لگتے تھے مٹی کا تیار شدہ مال کو تین دن دھوپ میں سکھانے کے بعد ایک ایسے برتن میں پکایا جاتا تھا جس کا ایندھن مختلف قسم کے کچرا کنڈیوں سے جمع شدہ کچرے پر مشتمل ہوتا تھا یہ بھی صدیوں سے چلا آنے والے انکا اپنا فارمولا تھا جس میں نہ ہی بجلی خرچ ہوتی تھی نا ہی ایٹمی ایندھن کا استعمال ہوتا تھا ماضی میں تقریباََ 50فیصد عورتیں بھی یہ کام کرتی تھیں جبکہ اس دور میں تقریباََ 20فیصد عورتیں یہ کام کرتیں ہیں ۔ماضی میں کئی اقسام کے برتن بنائے جاتے تھے جس میں نادی ، گملے، گڑھے ، تندور ، مٹکے ، صراحی، غلق، گلاس، ہانڈی ، پلیٹیں ، اور مختلف قسم کی کئی اشیاء بنائی جاتی تھی ماضی میں مٹی کا کام بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور ماضی میں مٹکے ، نادی اور صراحی کافی تعداد میں بنتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد صرف 200یا 300روپے کماتے تھے وہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں شہر کی دکانوں میں بیچتے تھے ۔اور شہری اپنے خریدار کو دگنی قیمت میں دیتے تھے مٹی کا برتن پورے پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا ۔ماضی میں کمہار اپنے بچوں کو بھی یہی کام سکھاتے تھے اسی لیے کمہار کا کام نسل در نسل چلتا آرہا ہے ۔ کمہار لوگ اپنی ذہانت کا استعمال کر کے نئی نئی اشیاء تیار کرتے تھے ان سادہ ہنرمندوں کی بنائی ہوئی یہ چیزیں آج تک دنیا بھر کے لیے باعثِ توجہ ہیں ۔ 

................................................................................................


کمہار کے کام کی اہمیت اور استعمال
اور ان کی حالت زندگی۔
تاریخ 29نومبر2016 تحریر : سمبل نزیر ، رول نمبر 61

Please read what is investigative reporting is
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 

It looks like article. In reporting always source is quoted.

کمہار کا کام آج بھی اچھے سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔اور اس میں سے آنے والی آمدنی میں سے ان کاگذر بسر ہوتا ہے پر پھر بھی وہ اس کام سے کچھ حدتک مطمئن ہیں کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے ۔ کمہار کا کام جہاں ہوتا ہے وہاں کچھ مزدور رکھے ہیں اور کافی جگہوں ان کے اپنے گھر کے افراد ہی اتنے ہوتے ہیں کہ آسانی سے مل جل کر ایک دوسرے کا کام میں ہاتھ بٹا دیتا ہے مزدوروں کو مزدوری دن کے حساب سے دی جاتی ہے جو کہ روز مرہ کام کے حساب سے 100ہوتی ہے پھر وہ چاہیے جتنا بھی کام کرلے جسے ایک مٹکے کی مزدوری ان کو 10روپے دی جاتی ہے اور جب آگے جاکر کہ یہ مٹکے بکتے ہیں تو 100,200تک ان کی کمائی ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آگے لوگوں تک پہنچے ہیں تو ان کی قیمت میں اور اضاضہ ہوجاتا ہے جب کے ایک گلک کی بنائی کی مزدوری صرف تین روپے ہوتی ہے اسطرح ہر دن کے حساب سے 100گلک بنتے ہیں تو اس حساب سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے ۔جب بھٹی کے لیے لکڑی کابورادہ چاہیے ہوتا ہے تو تقریباً انہٰں 200ایک گاڑی 500روپے کی پڑتی ہے کمہاروں کی حالت زندگی زیادہ مختلف نہیں ہے عام لوگوں کی نسبت اور جو مزدور وہاں کام کرتے ہیں ان کا گذارا بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔ ان کی محنت مزوری زیادہ ہے پر اس کا معاوضہ انہیں بہت کم ملتا ہے پر وہ اسی میں خوش ہیں کیونکہ وہ باہر جاکر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے ہے کیونکہ بچپن سے ہی انہیں یہ کام سکھادیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ نہ وہ کوئی کام کرتے ہیں اورنہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ باہر جاکر وہ کوئی دوسرا کام کرے ۔ اور اگر اسی کام کے لیے جاتے بھی ہے تو انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے اس کام کے حساب سے وہی کے ایک رہائشی سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ وہ پچپن سے ہی اس کام کو سر انجام دیتے آرہے ہیں پر باقیوں کی نسبت انہوںے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس مقام پر پہنچایا کہ آج وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں سے ان کا ایک بیٹا پولیس میں نوکری کرتا ہے اور دوسرا بیٹا فوج میں ہیں ان کی بہو سماجی کارکن ہیں اور جو اس کے تین بیٹے ہیں اور ان کے بچے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے وجہ سے اس کمہار کے کام کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ان کا رجحان اس کام کی طرف کبھی ہوا ہی نہیں اور ان کے والدین نے کبھی بھی انہیں اس کام کو کرنے کے لیے دباؤں بھی نہیں ڈالا اور یہ کام کرتے بھی نہیں دیا جاتا انہیں کمہار کی آمدنی کا ذریعہ ہیں مٹی کے برتن بناے تک ہی ہے جسے کے نادی اس کی بناوٹ کے مزدوروں کو 30,20روپے ملتے ہیں جو کہ آگے جاکر بازاروں میں فروخت کے بعد ان کی قیمت 400,300تک ہوتی ہے ۔کمہاروں کی آبادی بلکل الگ ہوتی ہے جس میں صرف کمہار کی برادری کے لوگ رہتے ہیں کوئی بھی باہر کا بندہ وہاں نہیں رہتا سندھ میں ہی نہیں تقریباً کمہار قوم جہاں جہاں آباد ہے انسوں نے اپنی الگ ہی بستی بنائی ہوئی ہے اور وہ اپنی برادری میں ہی شادیاں کرتے ہیں صدیاں گزر گئی ہے انہیں یہ کمہار کا کام کرتے ہوئے اور انہیں اس کام سے بے انتہا لگاؤ ہوگیا ہے وہ اس کے علاوہ اور کسی کام کا سوچ ہی نہیں سکتے اور نسل در نسل سے یہی کام کرتے آرہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی کام کرکے اسی طرح کمہار کے نام اور کام کو زندہ رکھیں گے ۔


...........................................................................
Repetition of Aqsa. Please read what is investigative reporting is.
 Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 
It looks like article. In reporting always source is quoted.

 نرمین خان رول نمبر 44
 ایم اے پریوئیس
کمہار کی موجودہ صورتحال

مٹی سے بنے برتن آج کے دور میں بھی اور ماضی میں کافی مقبول اور قابل استعمال رہے ہیں اور کسی بھی دور میں مٹی سے بنے برتنوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مٹی سے بنے برتن کا استعمال انسانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ مٹی کے برتن استعمال کرنا سنت بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مٹی سے بنے برتنوں میں ہی کھانا پینا پسند فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں بھی مٹی کے برتن ہی دئے تھے جب کہ آج کل تحفہتاًبھی یہ رواج ختم ہوچکا ہے ۔ تاریخی لحاظ سے مٹی کے برتنوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب عقل انسانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھاتو کھانے پینے کے لئے مٹی کے برتنوں کا ہی استعمال شروع کیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے دور کے انسانوں کے مقابلے میں اس دور کے انسان زیادہ صحت مند ہوا کرتے تھے اور یقیناًاُن کی صحت مند زندگی کا ایک راز مٹی کے برتن کا استعمال بھی تھا موجودہ دور میں مٹی کے برتن کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا ہے اور مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک ، اسٹیل، سلور، پیتل ، کانچ، ماربل اور مختلف دھاتوں سے بنے برتنوں نے لے لی ہے۔ اور جب سے لوگوں نے مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ترک کیا ہے متعدد بیماریوں میں گھر چکے ہیں شہروں میں مٹی سے بنی اشیاء کا استعمال کھانے پینے کے لئے تو نہیں البتہ گھروں کی سجاوٹ اور تزئین و آرائیش میں ضرور ہوتا ہے اور مٹی کے برتنوں کا استعمال گاؤں اور دیہاتوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ شہری علاقوں میں مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ختم ہونے یا ترک ہونے کی وجہ سے برتن سازی کے کاروبار سے منسلک کاریگروں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی وجہ سے اس کاروبار سے جڑے لوگ آہستہ آہستہ یہ کام چھوڑتے جارہے ہیں اس صورتحال میں اگر دیکھا جائے توبرتن سازی کا کام موجودہ حالات میں کافی ابتر اور تنزلی کا شکار ہے حالانکہ برتن سازی کے کام کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتالیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں انسانوں نے اپنا انداز زندگی تبدیل کرلیا ہے اور اس بدلتی صورتحال سے برتن سازی کے کاروبار سے جڑے کاریگر کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں چاہے زمانہ نے ترقی میں انداز بدل لیے ہوں پر آج بھی حیدرآباد میں چند ایک جگہوں پر یہ کام اب بھی اسی لگن اور مہارت سے ہوتا ہے ان جگہوں میں ٹنڈو یوسف (اسلام آبادحیدرآباد) اور کمہار پاڑھ سرفہرست ہیں دیکھا جائے تو برتن سازی کا کام بے حد مشکل اور مہارت طلب کام ہے اور مٹی سے بنائی جانے والی اشیاء کئی مرحلوں سے گزر کر اپنی اصل شکل اختیار کرتی ہیں۔اگر کام کرنے والوں کی مشکلات کا اندازہ لگایا جائے تو کاریگر حیدرآباد سے میرپور جاکر خود کھیتوں سے مٹی کھود کر لے کر آتے ہیں پہلے زمیندار بلامعاوضہ وہ مٹی دے دیا کرتے تھے کیونکہ کھیتی کے دوران اضافی مٹی پانی کی رکاوٹ کا سبب بنتی تھی لیکن آج کل زمینداروں نے اس مٹی کی قیمت بھی وصول کرنا شروع کردی ہے جسکی وجہ سے برتن سازی کے کام کے لیئے مٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے دوسرا میرپور سے حیدرآباد مٹی لانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ایک مٹی کا ٹرک میرپور سے حیدرآباد تک لانے کی لاگت مبلغ 3000/- روپے پڑتی ہے لہذابرتن سازی کا کام دن بدن مہنگا ہوتا جارہا ہے اسکے علاوہ سب سے اہم اور توجہ طلب مسئلہ کہ پہلے مٹی کے برتن ہاتھوں سے بنائے جاتے تھے لیکن ترقی یافتہ دور کے مطابق اب برتن سازی مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے مشینوں کے استعمال سے بناوٹی خوبصورتی اور رنگ و روغن میں بہتری آئی ہے پر ان کمہاروں کے لئے روزگار مسئلہ بن گیا ہے جوکہ برسوں سے برتن سازی کے کام سے وابستہ تھے اگر حکومتی سطح پر اس کام سے وابستہ لوگوں کے لئے کوشش کی جائے اور ہاتھوں سے بنائے گئے برتنوں کوگھریلو صنعت کاری یا دست کاری کی صنعت کا درجہ دے کر اسکی ترقی کی کوشش کی جائے تو ان کاریگروں کی 
صورتحال میں کافی بہتری آسکتی ہے۔ 

....................................................................................................
Tazmeen ur report is short. Not impressive. File name not proper. Composing mistakes. 
Always write ur name in the file in ur medium 
Nothing new or impressive. 
No proper paragraphing. 
Photos should have been added. 
composing and Proof reading mistakes
It looks like article. In reporting always source is quoted.
کمہا ر کے کام میں خر ید فر و خت

M.A Previos
Tazmeen

کمیا ر کے کام میں اشیاء یا سا مان تو ذیا رہ در کا ر نہیں ہو تاالبتہ محنت اور وقت کی طو الت کا کا م ہے ۔ وہ کمہا ر جو کہ دیہا تی علاقو ں میں رہتے ہیں انہیں تو اس کا م کے لئے درکا رمٹی دیہا ت کی زمین سے ہی مل جا تی ہے بنا کسی معا و ضے کے جب کے وہ کمہا ر جو شہری آبادمیں اپنا گزر بسر کر تا ہیں ان ہے چکنی مٹی یہ تو خو د کسی اور ذرئع سے منگو انی پڑ ھتی ہے مٹکہ بر تن سر اہی گملے گلدستے وغیرہ کو بنا نے میں جس سا زو سامان کی ضر ورت پڑ ھتی ہے ان میں ان کا کوئی خر چا نہیں ہو تا مٹی کو گند تا ہیں اس میں ریشہ پیدا کر نے کے لئے گد ھے کی لیت کا استعمال کر تا ہیں امومن ان کے پا س گدھا گا ڑیا ں ہو تی ہیں تو ان ہیں یہ بھی بہ آسا نی درکا ر ہو جا تی ہے چاک بنا تے ہیں جس کے گھمنا کی کی مدد سے اور ہا تھ کی انگلیو ں کے استعمال اور اپنے ہنر بر تن کو شکل دیتے ہیں اصل مہا رت اس کا م میں ہا تھ کی ہے بڑا برتن امو من یہ ایک دن میں دو بنا لیتا ہیں اور چھو ٹے جیسے گلے ،ڈھکن ،دیا پلیٹ 100کی تعداد میں بنا لیتے ہیں ۔
کو ئی بھی کمیشن ایجنٹ مخصو ص ہو جا تا ہے کہ رو ز مخصو ص تعداد میں سا مان دینا ہو تا ہے اور پھر وہ آگے شہر میں دو کا نو ں یا ٹھیو ں کو زیا دہ رقم میں فر وخت کر تا ہے اور پھر وہ اس کے دوگنی قیمت میں گا ہکو ں کو فروخت کر تے ہیں ۔
پاکستان کے تقر یباََ ہر بڑے چھو ٹے شہر میں کمہا ر پا ڑہ کا نام سے بستی آباد ہے جہا ں یہ کام کیا جا تا ہے اور پھر آگا اس کی سیل ہو تی ہے ہر بر تن کی بنا وٹ اور نزاکت کو مدہ نظر رکھتا ہو ئے محنت کی اجر ت دی جا تی ہے خو اہ اس کا استعمال اب کم ہوچکا ہے جوکہ اس کی خر ید وفرو خت ما ضی میں دیکھنا میں آیا کر تی تھی اب نہا یت ہی کم ہو کر رہا گئی ہے اتنی خریت نہیں مل پا تی جتنی محنت ہے ۔تو نئے نسلو ں کا بھی اس کام میں رجہا ن کم ہو تا جا رہا ہے یہ نسبت ما ضی کے کمہا رمو جو د ہیں کمہار پا ڑہ بھی آبادہیں لیکن کمہا ر کے ہا تھو ں کی بنا ئی ہو ئی چےئز وقت کا چلن بدلنے کے سبب کسا با زاری کا شکار ہے جس سے ثقا فتی ادارو ں کی جانب سے سر پرستی کی ضرو رت ہے تا کہ ہنر بھی زند ہ رہے اور ہنر مند بھی ۔

-------------------------------- 
Outline 
انويسٽيگيشن رپورٽ:
آئوٽ لائين.
موضوع: ڪنڀار ڪو ڪم.
1: ڪنڀار ڪو ڪم جو طريقو (تفصيلي جائزو)
2: ڪنڀار ڪو ڪم مان ٺهندڙ شين جا قسم ۽ ان جي خاصيت
3: ڪنڀار ڪو ڪم مان ٺهندڙ شين جي خريد و فروخت
4: ڪنڀارن ڪي ڪم مان ايندڙ آمدني ۽ ان جي حالت ءِ زندگي
5: ڪنڀار ڪي ڪم  جو ماضي
6: ڪنڀار ڪو ڪم جو حال
7:ڪنڀار ڪي ڪم جو مستقل


ميمبر: ممتاز علي جمالي
راجيش ڪمار
سيدا ثناء شاهـه
سمبل
اقصيِٰ قريشي
تظمين رحمنٰ
  

حيدرآباد جا سرڪاري ۽ خانگي ڪاليج


How many govt colleges are  in Hyderabad? Sachal College Muslim College, Govt college Qasimabad are important.
Likewise no number of private colleges. These could be easily obtained form education department. 
No mention of girls colleges. 
This is like article, no quotes attribution from concerned people, otherwise its hearsay, which has no authenticity. 
 Quotations from students, teachers, parents, educationists, experts etc required.
Students teacher ratio, number of students in govt and private colleges, Ratio of students in arts, pre-engineering, pre-medical etc.
What new thing interesting was found? no mention.
Pictures and graphs etc.  
Sorry to say, this is just formality

عبدالرزاق ڪنڀر   عبدالغفار طارق علي چانڊيو  فهيم احمد ميمڻ
حيدرآباد جا سرڪاري ۽ خانگي ڪاليج 



تحرير ؛  عبدالرزاق ڪنڀر
(رول نمبر 03 ايم اي پريويئس)
اسان جي سنڌ جو سونهن  وارو شهر حيدرآباد تعليم جي ميدان ۾ ڪنهن به طرح پوئتي نه آهي، حيدرآباد کي اگر باب العلم سڏيو وڃي ته ڪو به وڌاءُ نه هوندو.
هتي  سرڪاري توڙي خانگي ڪاليج ڪافي تعداد ۾ آهن.جن ۾گورنمنٽ ڊگري ڪاليج لطيف آباد، گورنمنٽ شاھ لطيف ڪاليج، گورنمنٽ ڪاري موري ڪاليج، ڪمپريهينسِو ڪاليج، سٽي ڪاليج، ڊگري ڪوهسار ڪاليج سرِفهرست آهن.   پرائمري ۽ سيڪنڊري تعليم کانپوءِ ڪاليج ئي آهن جن ۾ شاگرد تعليم جو سلسلو جاري رکي سگھن ٿا.سرڪاري  ڪاليجن متعلق انويسٽيگيشن(تحقيق) ڪئي وئي ته معلوم ٿيو ته پرائمري ۽ سيڪنڊري اسڪولن وانگر هتي به سهولتون براءِ نام آهن ۽ مسئلن جا انبار آهن. هتي استادن سان گڏ شاگرد به تمام گھڻن مسئلن کي منهن ڏين ٿا. جن ۾  سڀ کان اهم مسئلو هي آهي ته سنڌ جا ڪافي ڪاليج سيڪنڊري اسڪولن سان گڏ هجن ٿا، جتي تقريبن اٺ نَوَ مهينا بغير پڙهائي جي گذريو وڃن، اهو هن طرح ته مارچ مهيني کان مڊل ڪلاس وارن جا امتحان شروع ٿي ويندا آهن. جيڪي ڏھ ڏينهن هلندا آهن. ان کان پوءِ سيڪنڊري اسڪول ( نائين ۽ ڏهين ) وارن جا امتحان جيڪي 20 کان 25 ڏينهن وٺيو وڃن. ان کان پوءِ ڪڏهن استاد غير حاضر ته ڪڏهن شاگرد غير حاضر اهو سلسلو هلندو ئي آهي ته مٿان وري يارهين ٻارهين وارن جا  امتحان شروع ٿي ويندا آهن انٽر وارن جا امتحان ختم ٿيندي ئي  گرمين جي مّوڪلن جو هُل هلندو آهي.  ۽ گرمين جون موڪلون ختم ٿيڻ کان پوءِ به ڪلاس هلڻ ۾ مهينو لڳيو وڃي . سيپٽمبر آڪٽومبر ۾ اڃان پڙهائي شروع مس ٿيندي آهي ته مٿان بي اي، بي ايس سي، ايم اي، ايم ايس سي وارن جي امتحان جي تاريخ اچي ويندي آهي اهڙي طرح سمورو سال گذري ويندو آهي. ۽ پڙهائي صرف ۽ صرف  ٻه اڍائي مهينا ڪا هلندي آهي نه ته بس. جن ڪاليجن ۾ شاگرد ٻه ٽي مهينا پڙهائي ڪن اهي ڪهڙي تعليم حاصل ڪندا ڇا پرائيندا.
سرڪاري ۽ خانگي اسڪولن ۾ جي ڀيٽ ڪنداسين ته ڪافي فرق نظر ايندو هاڻي سرڪاري ۽ خانگي ڪاليجن ۾ جيڪو فرق آهي ان جو جائزو وٺجي ٿو.


v   سرڪاري ۽ خانگي ڪاليجن جون عمارتون:
حيدرآباد جي سرڪاري ڪاليجن جي بلڊنگ جي ڳالهه ڪنداسين ته  سرڪاري ڪاليجن جون بلڊنگ تمام ڪشاديون،وڏا وڏا ميدان، ويڪرا ڪلاسز، هوا دار گيليريون ۽ سرڪاري ڪاليجن ۾ موجود استادن جي لاء اسٽاف روم، آفيسون ويڪريون ۽ سٺيون ٺهيل آهن جڏهن ته خانگي ڪاليجن  جون بلڊنگ مختصر ايراضي تي مشتمل هونديون آهن انهن جا ڪلاس ننڍڙا آفيسون به تمام ننڍيون آهن.

v   سرڪاري ۽ خانگي ڪاليجن جي شاگردن ۽ ان جي والدين  کي مهيـا سهولتون ۽ درپيش مسائل.
              ڪاليجن ۾ سهولتن جو ذڪر ڪنداسين ته صفائي سٿرائي جو نظام ڪافي حد تائين سٺو لڳندو آهي، ڪلاس ۽ حال آفيسون صاف  هونديون آهن، ڪافي حد تائين فرنيچر به لائقِ استعمال هوندو آهي. انفارميشن ڏيڻ ۽ وٺڻ لاءِ ملازم ڪافي تعداد ۾ موجود رهندا آهن جيڪي وقت سر شاگردن کي هر انفارميشن پهچائيندا رهندا آهن. داخلا کان ويندي امتحانن تائين انرولمنٽ هجي يا امتحاني فارم شاگردن کي ڪا خاص پريشاني نه ٿيندي 
آهي. سرڪاري ڪاليجن ۾ شاگردن جا مائٽ فيس نٿا ڀرين ڇو ته انهن جي مٿان گورنمنٽ طرفان ڪا به فيس وغيره مقرر ناهي ٿيل، جڏهن ته انهن کي ڪتاب به مفت ۾ ڏنا ويندا آهن 
جيڪڏهن سهولتن جي اڻهوند جي ڳالھ ڪئي  وڃي تـ سڀ کان پهرين  اسان   حيدرآباد جي     خانگي ڪاليج جي ڳالهه ڪنداسين ته تقريبن حيدرآباد ۾ موجود  خانگي ڪاليج  مختصرجڳهـ تي مبني يا مشتمل  آهن،  جنهن ۾ نه راند  روند جي ميدان  جي سهولت  ۽  پارڪ وغيره به نه هجڻ جي برابر  آهن ان کانسواءِ خانگي ڪاليج جا ڪلاس تمام ننڍا ۽ ان ۾ موجود شاگردن جي ڳچ تعداد هوندي  آهي، شاگردن جي وڌيڪ تعداد هجڻ جي ڪري پڙهائي تي به تمام گهڻو اثر پوي ٿو.  ان کان علاوه به ڪافي مسئلا آهن جيڪي خانگي ڪاليجن جي شاگردن کي درپيش اچن ٿا نه صرف ڪاليج  جي  شاگردن کي  مسئلن کي منهن ڏيڻو ٿو پوي بلڪه پنهنجن ٻارن کي خانگي ڪاليجن ۾ پڙهائيندڙ ٻارن جا والدين به ڪافي مسئلن کي منهن ٿا ڏين. امير ته پنهنجي ٻار جي فيس وغيره ڀري سگهي ٿو پر غريب لاءِ اها ڳالھ مشڪل هوندي آهي پر تنهن هوندي به غريب پنهنجي ٻار کي سٺي تعليم ڏيارڻ جي خواهش جي پٺيان محنت مزدوري ڪري پنهنجي ٻار جي هر ضرورت پوري ڪندو رهي ٿو. ڪاليج جو ڳريون فيسون، ڪتابن جا ڳرا خرچ، ٽرانسپورٽيشن جو خرچ وغيره. ڪٿي ڪٿي ڪاليج ننڍين ننڍين گلين ۾ هجڻ ڪري ٽرانسپورٽ جي آمد و رفت ته پري جي ڳالھ آهي پر موٽر سائيڪل به مشڪل سان ٿو وڃي.
هتي حيدرآباد جي  سرڪاري ڪاليجن ڏانهن نظر ڪريون ته جڏهن غريب شاگردن جا والدين ايندا آهن پنهنجو قيمتي ٽائيم ڪڍي پنهنجا ريڙها ڇڏي  ڪري پنهنجي ٻارن جي سار سنڀال لهڻ يا ان جي پڙهائي جي باري ۾ ڪجهه  پڇڻ ايندو آهي  ته اتي جا ماستر ۽ پرنسپال ان کي هڪ عجيب نظر سان ڏسن ٿا ڄڻ اهو غريب انسان ئي نه هجي، اهڙي طرح امتحاني فارم جي دوران به انهن غريب والدين کي تمام گهڻا ناز ۽ نخرا سهڻا پوندا آهن ۽ سائين سائين ڪرڻو پوندو آهي ۽ ٻيا به ڪيئن مسئلا در پيش اچن ٿا.  
سرڪاري ڪاليجن کي ملندڙ  سالانه فنڊز ۽ ان جو استعمال:
هتي حيدرآباد جي  سرڪاري ڪاليجن ڏانهن نظر ڪريون ته گورنمنٽ جي طرفان مختلف سرگرمين جا لّکين روپين جا فنڊز هر هڪ ڪاليج جي لاء مقرر ڪيا ويا آهن جنهن ۾ اسپورٽس جون سهولتون، اسٽڊي ٽور،ايس ايم سي،مينٽيننس ۽ ريپيئرمنٽ، ۽ ان کان علاوه سائنس جو تجرباتي سامان وٺڻ جو فنڊ جيڪو شاگردن کي سکيا ڏيڻ ۾ مدد ڪندو، مگر حيدرآباد  شهر جي ڪاليجن جا  پرنسپال انهن کي  الائي ڇو استعمال نٿا ڪن، اسان کي ڪاليجن ۾ اهڙا شاگرد به مليا جن کان اسان معلوم ڪيو ته ڇا اوهان ڪڏهن  سائنس حال ۾ وڃي ڪو تجربو ڪيو آهي جواب ۾ انهن اهو چيو ته اسان سائنس حال ڏٺو به ناهي ان کان علاوه هڪ ڪاليج جي شاگرد ٻڌايو ته اسان جا ته ڪلاس ئي نٿا هلن اسان جا ڪلاس پوري سال ۾ هلن ئي ڪي ٻه يا ٽي مهينا ٿا   انهن شاگردن اهو به چيو ته ڪنهن به راند لاءِ اسان کي نالي ماتر سامان ڏنو ويندو آهي. خبر ناهي ته پرنسپال فنڊز خرچ ڪرڻ کان ڇو لهرائيندا آهن. يا انهن جي هٿ ۾ سڀ ڪجھ هوندي به شاگرن کي سهولتون ڏيڻ ۾ ڪهڙي تڪليف ٿيندي اٿن. ان کان علاوه ڪافي ڪاليجن جا ڪلاس به زير تعمير هجڻ جي قابل هئا مگر واڱون جي وات وارا انسان سڀ فنڊز ڳهيو وڃن.
حيدرآباد جي خانگي ڪاليجن جي ڳالهه ڪنداسين ته ڪاليجن جي  ماهانه فيس تقريبن 2500 کان 3000 هزار روپيه آهي ۽ شاگردن جي تعداد جي ڳالهه ڪجي ته هر ڪاليج ۾ 500 کان 1000 شاگرد موجود آهن ۽ اهڙي طرح ڪل ملائي هر ڪاليج جي ماهانه آمدني 1500000 کان 2000000 لک روپيه آهي ايتري ڪاليج جي ماهانه  آمدني  هجڻ جي باوجود به خانگي ڪاليجن جا پرنسپال شاگردن جي والدين کي ٻڌايل سهولتن کان قاصر رهن ٿا. شاگردن جي والدين کي وڏيون سهولتون ٻڌائي  مطمئن ڪرڻ کان پوء ان ڳالهه جا وارث هي نه ٿا ٿين، خانگي ڪاليجن جا پرنسپال پنهنجي ڪيل ڳالهه تان ائين  ڦري ويندا آهن ڄڻ ٽريڪٽر جو ڦيٿو ته پوء ويچارا والدين سائين  سائين ڪري  هٿ ٻڌي جان ڇڏائيندا آهن. اسان پنهنجي هن تحقيق ۾ اهو نوٽ ڪيو  آهي ته اڄ جا تعليمي ادارا تعليمي ادارا ناهن رهيا بلڪي هڪ ماڊرن طريقو آهي ماڻهن کان پئسا ڦرڻ جو ائين کڻي چئون ته اهي اڇن ڪپڙن وارا ڦورو آهن.
خانگي ڪاليجن جا فيس اسٽرڪچر ۽ پڙهائي جو معيار
رول نمبر: 02
تحرير: عبدالغفار (ايم.اي پرويس) ماس ڪميونيڪيشن

اڄ جي حساب سان حيدرآباد سنڌ جو تمام قديم شهر آهي ۽ هي سنڌ جو وڏي کان وڏو ٻيو نمبر شهر آهي ايئن ڪري سنڌ جي دل ڇو ته هي سنڌ جو واحد شهر آهي جتي سرڪاري توڙي خانگي ڪاليجون تمام گهڻيون آهن جيڪڏهن تعليم جي حوالي سان ڏٺو وڃي سنڌ جي اندر حيدرآباد شهر ئي آهي جتي تعليم جو رجحان تمام گهڻو آهي ان لاءِ هتي خانگي ڪاليجن جو رجحان تمام گهڻو آهي هتي لڳ ڀڳ 25 کان وڌيڪ خانگي ڪاليجون آهن جنهن ۾ هر هڪ ڪاليج الڳ الڳ فيسون ورتيون وينديون آهن. گهٽ ۾ گهٽ فيس هتي جيڪي شاگردن کان وصول ڪئي وڃي ٿي اها تقريبن 3 کان 4 هزار تائين آهي پر حيدرآباد ۾ ڪجهه اهڙيون به ڪاليجون آهن جنهن ۾ تقريبن 6 مهينن جي فيس يعني سيمسٽر جي حساب سان ورتي ويندي آهي جتي گهڻو ڪري 6 مهينن جي فيس 35 کان 40 هزار روپيا ورتي ويندي آهي پر ڏٺو وڃي ته جيترا پئسه ورتا وڃن ٿا اوترو انهن کي پڙهايو به وڃي ٿو، اڪثر خانگي ڪاليجن جا شاگرد تمام گهڻا ذهين ۽ هوشيار هوندا آهن ڇو ته انهن ٻارن کي هڪ ترتيب سان هڪ سٺي اصولن سان پڙهايو ويندو آهي جنهن جي ڪري اهو ٻار اڳتي هلي زندگي جي ڪنهن به موڙ تي ڏکيائين کي گهٽ منهن ڏيندو آهي. 100% سيڪڙو شاگردن مان 75% سيڪڙو ٻار خانگي ڪاليجن ۾ پڙهن ٿا ان جو اهو ئي سبب آهي جو سرڪاري ڪاليجن جي بنسبت خانگي ڪاليجن ۾ پڙهائي جو رجحان تمام گهڻو آهي خانگي ڪاليجن ۾ 75% سيڪڙو ٻارن مان هر روز %70 سيڪڙو شاگرد حاضر رهندا آهن ان جو سبب هڪ هي به آهي جو اتي پڙهائي جو رجحان تمام گهڻو هوندو آهي ۽ وڏي ڳالهه هي به آهي ته ڪنهن به ڪاليج کي هلائڻ لاءِ استادن جي تمام وڏي ضرورت هوندي آهي ۽ ان سان گڏ انهن استادن جو ڪاليجن ۾ حاضر رهڻ جو ريشو تمام اهم هوندو آهي اگر ڪنهن اداري کي هلائڻ وارو ئي ظاهر نه هجي يعني ڪڏهن ڪلاس ۾ حاضر هجي يا ڪڏهن وري غير حاضر ته پوءِ ان جو سبب ٻارن جي پڙهائي تي پوندو ۽ آهستي آهستي پڙهڻ وارن شاگردن جو رجحان تمام گهٽجي ويندو ان ڳالهه کي نظر ۾ رکي جيڪڏهن ڏٺو وڃي ته سرڪاري ڪاليجن ۾ ٻارن جو ايتري گهٽ تعداد ڇو هوندو آهي، ڇو جو اُتي پڙهائڻ وارو استاد ظاهر هجي ته ٻار پڙهن نه، اگر اهو ئي نه هوندو ته ڪلاس ۾ هميشه خالي خالي هوندو اهو ئي سبب آهي جو اڄ به توهان اگر خانگي ڪاليجن ۾ ويندا ته توهان کي ڪلاس ڀريل ۽ استاد حاظر نظر ايندا جڏهن توهان جو وڃڻ ڪجهه سرڪاري ڪاليجن ۾ ٿيندو ته اتي توهان کي شاگرد ته تمام گهٽ نظر ايندا پر استاد به نه هجڻ جي برابر هوندا، خانگي ڪاليجن جي مالڪن کي هر مهيني فيس مان ملندڙ رقم مان 60%سيڪڙو بچت پڻ ٿيندي آهي پوءِ چاهي اها ننڍي خانگي ڪاليج هجي يا وڏي، ڏٺو وڃي ته جيڪي خانگي ادارا گهٽ فيس يعني 4 هزار وٺن ٿا انهن ڪاليجن ۾ وچولي تبقي جا تمام گهڻا ٻار پڙهندا آهن يعني چوڻ مطابق ته في ڪاليج اندر گهٽ ۾ گهٽ 1200 شاگرد هوندا آهن هن ترتيب کي ڏسي جيڪڏهن حساب لڳائبو ته هڪ مهيني جي فيس جو حساب 48 لک بيهندو ۽ اگر سال جو حساب ڪيو وڃي ته تقريبن 5 ڪروڙ 76 لک بيهندا ۽ هن جو تقريبن 6 حصو مالڪ جي بچت ۾ شمار ٿيندو آهي ۽ باقي 4 حصا استادن جي پگهارن، هر روز جو ٿيندڙ شاگردن تي سنهو ٿلهو خرچو وغيره ۽ اهڙن ادارن ۾ استادن جو پگهارون به تمام گهڻيون هونديون آهن يعني في استاد هر مهيني جي 35 کان 40 هزار پگهار کڻندو آهي، باقي رهي ڳالهه انهن ڪاليجن جي جيڪي هر 6 مهيني تقريبن 35 کان 40 هزار روپيه فيس وٺن ٿيون ان ڪاليجن ۾ وري شاگردن جو تعداد به تمام گهڻو هوندو آهي اتي پڙهندڙ شاگردن جو تعداد لڳ ڀڳ 3 هزار يا وري ان کان به وڌيڪ هوندو آهي، جيڪڏهن ان سلسلي مطابق سال جو حساب لڳائبو ته تقريبن 10 ڪروڙ 50 لک روپيه بيهندا. ان کان علاوه اهڙين ڪاليجن ۾ پڙهائيندڙ ليڪچرار ۽ پروفيسر ماهوار 1 لک کان به وڌيڪ پگهارون کڻندا آهن هنن سڀني شين کي نظر ۾ رکندي ڏٺو وڃي ته جيتري فيس ورتي وڃي ٿي اوترو پڙهايو به وڃي ٿو ۽ وڏي ڳالهه خانگي ڪاليجن ۾ هي به آهي ته اتي ماحول تمام صاف سٿرو ۽ بهترين هوندو آهي جنهن مان اتي پڙهندڙ ٻار سٺي نموني سٺي تعليم پڻ پرائي سگهندو آهي ۽ ان سان گڏ هو اهي ڪيتريون ئي شيون سکندو آهي جيڪي خانگي ڪاليجن ۾ پڙهائڻ سان سکڻ لاءِ پڻ ملنديون آهن.


سرڪاري ۽ خانگي ڪاليجن ۾ پڙهائي جي طريقو ۽ تعليمي سرگرميون ۽ معمار
رول نمبر: 63
ليکڪ: طارق علي چانڊيو
(ايم.اي پرويس) ماس ڪميونيڪيشن

جيئن ته اڄ ڪلهه ڏٺو ٿو وڃي سرڪاري ڪاليجن ۾ شاگردن جو تعداد گهٽ پيو ٿيندو وڃي ۽ ٻي طرف وري ڏينهون ڏينهن خانگي ڪاليجن ۾ شاگردن جو تعداد وڌندو پيو وڃي، ساڪاري ڪاليجن ۾ شاگردن جو گهٽجڻ جا ڪيترائي سبب نظر آيا آهن. 
·       سرڪاري ڪاليجن جي استادن جو ڪلاس گهٽ وٺڻ.
·       سرڪاري ڪاليجن جي استادن جو پڙهائڻ جو طريقو.
·       سرڪاري ڪاليجن جي استادن جو شاگردن کي روزمره جو ڪلاس ورڪ ۽ توڙي گهرو ڪم نه برابر ڪرائڻ.
سرڪاري ڪاليجن جا استاد هڪ ته ايندا گهٽ آهن وري اگر جي اچن به ته ويتر ڪلاس وٺڻ تي ڄڻ ته تپ وٺجو وڃي. جڏهن ڪاليجن جو رُک ڪندا آهن ته پهريان پنهنجي زندگي ۽ روزمره جي ڪم ڪار بابت آفيسن ۾ ڪچهريون پيا ڪن ۽ جڏهن ڪلاس ۾ ايندا آهن ته ليڪچر ٽاپڪ جي مطابق گهٽ هوندو آهي پر هيڏاهن هوڏاهن جو ڳالهيون گهڻيون هونديون آهن ته ان ۾ ئي سڄي ليڪچر جو ٽائيم ختم ڪري هليا وڃن ٿا ڏينهن گذرندا رهن ٿا ۽ پيو ٿيندو اچي ان سان ڪيئن ان سرڪاري ڪاليجن جا شاگرد ڪنهن سٺي تعليم جو معمار بڻجي سگهجندا ۽ جڏهن اتان جا شاگرد استاد جو اهو پڙهائڻ جو طريقو ڏسي نه پڙهندا آهن ته اهو ئي استاد انهن کي هڪ پراڻي چوڻي پيا چوندا اچن پيا “پُٽ پڙهو نه پڙهو اوهان جو نقصان آهي اگر نه پڙهندو ته به اسان کي ڪو نقصان نه آهي اگرپڙهندو ته توهان جو ئي فائدو آهي”. پر اهو استاد نه سوچيندو آهي ته مان چئي ڇا رهيو آهي ۽ ان جو نتيجو ڇا نڪرندو هڪ ته خوف هڪ ٻار کي والدين جو هوندو آهي ۽ ٻيو وري ان استاد جو جنهن وٽ هو زماني جي صحيح ۽ غلط جي پرک ڏيندو آهي ۽ سيکاريندو ايندو آهي هر هڪ دنيا جي اها شيءِ جيڪا عام اکين کان اوجهل هوندي آهي ان ڪري ته چيو ويندو آهي علم انسان جي ٽين اک آهي جنهن وقت ٻه اکيون ڪم ڪرڻ ڇڏي ڏينديون آهن ان وقت صرف علم واري جي اها ٽي اک کلي ويندي آهي ۽ علم وارو ئي اهي ڏکيا ۽ اوجهيل مسئلا حل ڪري ۽ ڏسي سگهي ٿو ۽ ان ئي شاگرد مان جڏهن خوف ختم ٿي وڃي ٿو صحيح غلط جي پهچان جو پوءِ هو ويهشڙ ٿي وڃي ٿو هو تعليم ته حاصل ڪري ويندو پر اُن ۾ صحيح ۽ غلط جي پرک بلڪل به نٿي رهي ۽ وري اهو ئي استاد ان جي مدد ڪري ٿو جنهن وقت هن ۾ ٻيهر خوف پيدا ٿئي ٿو امتحان وقت جڏهن هن کي خوف رهي ٿو ته مان ڪجهه به نه پڙهيو آهي ته ان وقت جڏهن هو پنهنجي ظمير سان ڳالهائي ٿو وري اهو ئي سرڪاري ڪاليج وارا استاد، ليڪچرار هن کي پاڻ ڪاپي، نقل ڪري هن کي بلڪل نااهل ڪري ڇڏي ٿو، پوءِ هو ان شيءِ جو عادي بڻجي وڃي ٿو. ڊگري ته هي ڪڍي وڃي ٿو پر اُن ڊگري مطالق هن کي ڪابه خاص ڄاڻ ڪانه آهي جو هي ڪا سٺي نوڪري ڪري سگهي. سرڪاري ڪاليجن ۾ اگر100% شاگرد جي ايڊميشن آهي ته انهيءِ مان فقط ريگيولر 40% يا30% رهن ٿا باقي سڀ امتحانن جي دوران اوهان سڀني به ضرور ڏٺو هوندو جنهن وقت امتحان ٿيندا آهن سرڪاري ڪاليجن جا ايترا شاگرد نظر ايندا آهن جو ڪلاسن ۾ به جڳهه گهٽ هوندي آهي ته هالن ۾ انهن جون ڪرسيون رکيون وينديون آهن ته جيئن هو امتحان ڏئي سگهن باقي سڀ شاگرد صرف امتحان ڏيڻ ايندا آهن ۽ چئجي ته سرڪاري ڪاليجن ۾ ڊگريون بس پئسن تي پيون ملن هاڻي. شاگردن جو تعداد گهٽ ان ڪري به ٿيندو پيو وڃي سرڪاري ڪاليجن ۽ اسڪولن مان ڇو جو اتان جا شاگرد تمام گهٽ هوشيار ۽ ذهين ٿين ٿا. اگر هوشيار سرڪاري ڪاليجن جي شاگردن جو تعداد گهٽجي ته 100% مان 30 يا%40 نه ته باقي سڀ صرف خالي ڊگري وارا.
خانگي ڪاليجن ۾ تعليم جو معيار سٺو ۽ بهتر ۽ ان ۾ شاگردن جو ريگيولر هجڻ جو سبب:
·       خانگي ڪاليجن ۾ استادن جو ريگيولر هجڻ.
·       خانگي ڪاليجن ۾ شاگردن جو ريگيولر هجڻ.
·       خانگي ڪاليجن ۾ پنهنجو روزمره جو ڪلاس جو ڪم ۽ گهرو ڪم صحيح طريقي سان ڪرڻ.
خانگي ڪاليجن ۾ هڪ ته استاد ريگيولر هوندا ۽ ٻيو وري اهي ٽائيم تي هر هڪ شيءِ سٺي ۽ سهڻي نموني سان سيکاريندا به آهن ۽ پڙهائيندا ئي به آهن ۽ شاگرد ان ڪري به ريگيولر رهن ٿا ڇو جو استادن جو انهن کي خوف رهي ٿو، جيڪڏهن اسان پنهنجو ڪم صحيح طريقي سان نه ڪيو ته ڊگري حاصل نه ڪري سگهنداسين ۽ شاگردن جو روزمره ڪلاس جو ڪم ٽائيم تي ان ڪري به ڪندا آهن ڇو جو خانگي ڪاليجن جا استاد تمام سخت ٿيندا آهن. جيڪڏهن اتان جو استاد صحيح طريقي سان شاگرد کي نٿو پڙهائي يا سمجهائي ته ان جي پگهار تي اثر پوي ٿو. خانگي ڪاليجن ۾ شاگردن جي ريگيولر هجڻ جي پرسنٽيج 100% مان %70 رهي ٿي ۽ اتان جو شاگرد هوشيار %100 مان %60 ۽ %50 رهي ٿي. 

موضوع: سرڪاري ۽ خانگي ڪاليجن ۾ صاف پاڻي ۽ صفائي جو نظام
 (فهيم احمد ميمڻايم اي پريوئس) رول نمبر20
ڪاليج هڪ اهڙي جڳهه آهي جتي هر هڪ تمام گهڻيون شيون سکهڻ ايندو آهي ۽ هڪ زميندار انسان بڻجندو آهي اڄڪلهه ڪجهـ ڪاليجن جا ميدان ڪچري ۽ گندگي سان ڀريل هوندا آهن ۽ سرڪاري ڪاليجن ۾ صفائي جو ڪو خاص نظام نـ آهي خاص ڪري ٻارن لاءِ واش رومس آهن پر پاڻي جي کوٽ آهي. صفائي سٿرائي ۽ پٽي والن جي کوٽ آهي يا وري اسٽاف تي پٽي والا موجود نـ آهن يا وري پٽي والا ڪنهن وڏيري جي اوطاق جا خيال رکندڙ آهن مطلب تـ هر طرح سان گورنمنٽ ڪاليج پٺتي پيل آهن. ڪٿي وري ائين بـ آهي تـ ڪو ايماندار آهي پر انتظاميـ انهن پٽي والن لاءِ سنجيده نـ آهي مثال طور پٽي والن جي لاءِ ساليانو ورديون نـ ٿيون ڏنيون وڃن نـ وري انهن کي ان وردين لاءِ قيمت بـ نـ ٿي ڏني وڃي يا وري ائين چئجي تـ پٽي والن جا گريڊس بـ تمام گهٽ آهن ۽ انهن کي پگهار کان وڌيڪ ڪا سهولت بـ نـ ٿي ڏني وڃي جنهن ڪري اڪثر هي معاشي طرح تمام ڪمزور هجن ٿا .استادن جي لاءِ ڪان سهولت موجود نـ آهي سرڪاري ڪاليجن ۾ ملازمين پنهنجا فرض صحيح سرانجام نـ ڏئي رهيان آهن ۽ انهن کي اداري سان اها شڪايت آهي تـ انهن جي پگهار گهٽ آهي ۽ ملازمين کي ڪاليجن ۾ ڪا سهولت نٿي ڏني وڃي.شاگردن کي صفائي سٿرائي جو هڪ اهم ڪردار ادا ڪرڻ گهرجي.    ائين ئي خانگي ڪاليجن ۾ صفائي جو نظام خاص ڪيل آهي خاص ڪري ٻارن لاءِ واش رومس آهن ۽ پاڻي جي کوٽ نـ آهي پر پٽي والن کي ڪم گهڻو ڪرايو ويندو آهي ۽ پگهار گهٽ ڏني ويندي آهي.سرڪاري ڪاليجن جي اندازي مطابق خانگي ڪاليجن ۾ صفائي جو معيار سٺو آهي.۽ صفائي سٿرائي ۾ اسان سڀني کي اهم ڪردار ادا ڪرڻ گهرجي.

Tuesday 29 November 2016

حیدرآباد میں غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج

This is like article, or hearsay. no quotes attribution from concerned people, otherwise its hearsay, which has no authenticity. 

 Quotations from  related people, experts etc required. 
What new thing interesting was found? no mention.
Pictures and graphs etc.  
No proper paragraphing


واثق احمد میمن
وسیم احمد
محمد نبیل 
شاہ رخ شیخ 
مُنعِم علی خان
حیدرآباد میں غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج
Conclusion
جس طرح شہریوں کو مہنگائی ،بدنظمی اور دوسری مشکلات نے پریشان کیا ہوا ہے بلکل اسی طرح چارجڈ پارکنگ کیوجہ سے بھی عوام کو ذہنی اذیت اٹھانی پڑھتی ہے جگہ جگہ شاپنگ سینٹرز ،ہسپتالوں،مارکیٹوں اور دوسری اہم عمارت کا قیام عمل میں آچکا ہے اور ہزارو ںکی تعداد میں لوگ اپنی ضرورتوں کے تحت باہر جاتے ہے اور مختلف جگہوں پر گاڑیاں پارک کرتے ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ابھی اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی نا سکے کے رقم وصول کرنے ایک دو نہیں کئی مافیا کے کارکن دوڑے بھاگے چلے آئے صاحب اس جگہ ذرا اور آ گے اس طرف موڑ لے بلکل ٹھیک ہدایت دینے کے بعد اس شخص نے رسید بک سے رسید کاٹی اور 20 سے30 روپے تک بڑی آسانی سے وصول کرلیے کچھ اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہم تو بلدیہ یاکنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم ہے اب آپ ہوگئے لاجواب کہ اس بیچارے کی کیا غلطی؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی سر انجام نے رہا ہے لیکن وہ بھی بیچارا نہیں ہے ان کا بھی مختلف پارٹیوں سے تعلق ہے یا پھر آپس میں ہی تے کرلیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہوں پر پارکنگ نہیں وہاں ہمارے لوگ پارکنگ وصول کرینگے اور پھر طاقت کے بل پر وہ معصوم شہریوں کو بڑی آسانی سے لوٹتے ہے اور پھر اپنا اپنا حصہ تقسیم کرلیتے ہے اس تقسیم میں بلدیہ حیدرآباد سمیت ٹریفک پولیس بھی شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم مسلہ یہ ہے کہ پار کنگ کنٹریکٹر اپنے اپنے مختص کی ہوئی پارکنگ کی حدود سے اکثر تجاوز کرتے ہوئے آمدو رفت کے آنے جانے والے مین روڈز پر بھی گاڑیاں کھڑی کرواکر پیسے وصول کرتے ہے جس کی وجہ سے ٹریفک بھی جام رہتا ہے بعذ اوقات اتنی شدید ٹریفک جام ہوجاتی ہے کہ ایمبولینسس بھی پھنس کر رہ جاتی ہے ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ پولیس تو ہر بڑے کاموں میں ابتدا سے لیکر انتہا تک شامل رہتی ہے بس اسے اپنا حصہ ملنا چاہیے باقی جو جس کا دل چاہے کریں۔آج کل جدید عمارتوں میں نا کہ پارکنگ ایریا ہوتا ہے بلکہ گارڈ بھی ان جگہوں پر تعینات کیے جاتے ہے پھر پارکنگ کے حوالے سے کیوں رقم چارج کی جاتی ہے؟ یہ کھلم کھلا نا انصافی ہے اس طرح یہ لوگ ایک دن میں ہزاروں روپے کما لیتے ہے اور شہریوں کی جیبے خالی کردیتے ہے کیونکہ عید ین اور چھوٹے بڑے مواقع پر ایک ہی گھر سے کئی بار خریداری کے لیے مارکیٹ جانا پڑتا ہے تو ہر دفعہ خریدار کو گاڑی پارک کرنے کے پیسے دینے پڑتے ہے اس طرح پورے دن میں ایک ہی گھر سے 100,150 روپے آسانی سے کما لیتے ہے موٹر سائیکلوں کی پارکنگ سے آمدنی الگ حاصل ہوتی ہے اکثر اوقات ایک دو منٹ کا ہی کام ہوتا ہے لیکن پارکنگ ٹیکس ضرور ادا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 25 لاکھ آبادی پر مشتمل سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جہاں آس پاس کے مضافاتی علاقوں بدین،ماتلی،ٹھٹھہ،سجاول،ٹنڈو محمد خان ،ہالا،مٹیاری،نواب شاھ،ڈگری،میرپورخاص،ٹنڈو الھیار ، کوٹری،جامشورو،ٹنڈوآدم سے یومیہ محتاط اندازے کے مطابق 20000 چھوٹی بڑی گاڑیاں شہر میں داخل ہوتی ہے شہر میں موجود گاڑیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے لوگ عیدین،چھوٹے بڑے تہوار،دوکانوں کی خریداری کرنے، علاج کروانے ،تعلیم حاصل کرنے ،سرکاری دفاتر میں اپنا کام نپٹانے اور سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز کے اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے آتے ہے جو روز اس قسم کی منظم اور طاقتور مافیا ناجائز وصولی کا شکار ہوتے ہے جو کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے یہ سارا غیر قانونی عمل پولیس ،لوکل شہری انتظامیہ اور مقامی سیاسی با اثر لوگوں کی سرپرستی کے بغیر نا ممکن ہے پارکنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی قریبی پولیس چوکی یا اسٹیشن ،لفٹر پولیس ،ٹریفک پولیس سمیت بلدیہ حیدرآباد کی انتظامیہ کو ہفتے وار یا ماہوار ذمہ داری سے پہنچائی جاتی ہے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کے اس سارے عمل میں ملوث بے ایمان سرکاری اہلکار اور مقامی با اثر افراد کے خلاف ایکشن لےکر عوام کو ایذا پہنچانے والے عمل کو روکا جائے ۔


   حیدرآباد میں مختلف مقامات میں ناجائز پارکنگ ایریاز کی بھرمار

 واثق احمد میمن رول نمبر 70
ناجائز پارکنگ فیس وصولی حیدرآباد کے مختلف تجارتی مراکز میں عام شہریوں سے وصول کی جارہی ہے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن والے لمبی تان کے سوئے ہوئے ہے اسے انتظامیہ کی غفلت کہیں یا پارکنگ مافیا کی بد معاشی کہ شہر کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے بازاروں،ہوٹلز اور سڑکوں پر پارکنگ کے نام پر زبردستی روڈ بلاک کرکے ٹریفک معطل کیا جاتا ہے مافیا کی ہٹ دھرمی سے شہری براہ راست متاثر ہورہے ہے جی جناب موٹر سائیکل کیلئے صرف 10 روپے سرکاری فیس کہ باوجود پارکنگ مافیا شہریوںسے 20 روپے تک وصول کر رہا ہے اور یہ سارا عوام کو لوٹنے کا دھندا حکومتی آشیرباد سے جاری ہے ٹریفک پولیس ایسی موٹر سائیکلوں کو اٹھاکر ضرور لے جاتی ہے جو کم از کم کسی ٹریفک جام کا باعث نہیں بنتی مگر مجال ہے جو غیر قانونی پارکنگ ایریا سے کسی سواری کو ہاتھ تک لگائے،ٹریفک جام ہوتا ہے تو ہونے دے حضور۔۔۔پارکنگ مافیا کی ملی بھگت سے ہفتہ تو مل رہا ہے ناں۔۔۔یقینا انتظامیہ اور ٹریفک پولیس اس غیر قانونی کام میں برابر کے شریک ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پارکنگ کی اصل فیس کیا ہے اور 20 20 روپے کیوں وصول کئے جارہے ہیں شہر کی تمام ہی سڑکوں پرٹریفک کا بلاک رہنا معمول بن گےا ہے سڑک پر غیر قانونی پارکنگ بنادی گئی ہے تفصیلات کے مطابق شہر حیدرآباد کے ہیرآباد میں واقع bone care ہسپتال کے باہر حیدرآباد کے آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے آنے والے مجبور اور بے سہارا مریضوں کے احباب سے ناجائز پارکنگ فیس وصول کی جاتی ہے جہاں بعض اوقات سڑک کے دونوں اطراف گاڑی کھڑی کردی جاتی ہیں جس سے گذرنے والے انتہائی مشکلات کا شکار رہتے ہیں اس سڑک کے اردگرد 40 کے قریب پلازے بنے ہوئے ہے اور کسی نے بھی پارکنگ کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا اور ان پلازوں میں آنے جانے والے بھی گاڑیاں سڑکوں پر ہی پاک کرتے ہے اس کے علاوہ اسٹیشن روڈ حیدرآباد میں واقع ہوٹلز مالکان نے اپنی من مانی کرتے باچا خان پل کے نیچے اپنے اپنے پارکنگ ایریاز مختص کردئیے ہے شہر سے باہر آنے وا لے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کے لیے گاڑی پارک کرنا بڑا مسلئہ ہوتا ہے ہوٹلز انتظامیہ جنہیں اپنی سروسز فراہم کرتے ہوئے بیچ سڑک پل کے نیچے گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ مہیا کرتی ہے جس کے عیوض وہ اپنے کسٹمرز کی توجہ حاصل کرتی ہے میونسپل کارپوریشن حیدرآباد کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر کہا گیا اس قسم کی پارکنگ کی روک تھام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے ایسی ہی مافیاز شہر کی تقر یبا ہر شاہراہ پر بغیر کسی روک ٹوک کے کھلے عام دن کے اجالے میں شہریوں کو لوٹتے آپ کو نظر آئےگی قانون کے مطابق کینٹونمنٹ ایکٹ 1924 ہویا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001 ہو کوئی بھی پارکنگ وصول کرنے والا کنٹریکٹڑ کی ذمہ داری ہے کہ گاڑی پارک کرنے والے شخص کو سروس پرووائیڈ کریں یعنی پارکنگ کی جگہ مختص کی ہوئی ہو اورکھڑی کی گئی گاڑی کی حفاظت کریںاس ضمن میں شہر کی ایک اور اہم شاہراہ ٹھنڈی سڑک پر جہاں حیدرآباد ڈویزن کے اہم دفاتر ہے پاکستان اسٹیٹ لائف بلڈنگ، سندھ پبلک سروس کمیشن ،نیاز اسٹیڈیم سمیت شھباز بلڈنگ بھی واقع ہے جہاں سڑک کے دونوں طرف یہ مافیا آپ کو سر گرم نظر آئےنگے ان مافیاز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت مقامی سیاسی رہنماو کی مکمل سرپرستی حاصل ہے نجی ٹھیکیدار بھتے کی طرح پارکنگ فیس وصول کرتے ہے اس طرح سے ان میں بھی مختلف قسم کے گروہ ہے جن میں سے ایک چارجڈ پارکنگ مافیا ہے ان کا گٹحجور ٹریفک پولیس ،لیفٹر ،قریبی پولیس چوکی اور بلدیہ کی انتظامیہ کے ساتھ ہوتا ہے یہ مافیا پہلے کسی بھی نو پارکنگ ایریا پر گاڑیا ں پارک کرواتے ہے اور کچھ لوگوں کے لیے جنہیں روز وہاں آنا ہوتا ہے انہی کی گاڑی پارک کرتے ہے جس کے لیے انہیں روز کے 50 روپے اور باز اوقات ماہانہ 1000 روپے ملتے ہے اور اگر کوئی دوسرا شہری کسی کام سے آجائے اور کچھ دیر کے لیے گاڑی کھڑی کرنا چاہے اور وہ غیر پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے کے پیسے دینے سے انکار کردے تو یہ منظم مافیا فوری طور اپنے پیٹی بھائی ٹریفک پولیس کی کار لفٹر جو کہ ان سے رابطے میں رہتے ہے بلالیتے ہے جو شہری کی گاڑی اٹھالیتے ہے500 فائن کرتے ہیں جس سے پولیس اور مافیا کی ملی بھگت ثابت ہوتی ہیں مافیا کی حوصلا افزائی ہوتی ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ روڈ ٹیکس پیئرز ہے اور وہ اپنے ہی روڈ ز پر گاڑی نہیں چلاسکتے قانون نافذ کرنے والے اداروے اس سارے عمل کو روکنے کی بجائے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والے چارجڈ مافیا گروہ کے ساتھ شراکت داری بنا رکھی ہے مجاز اداروں کو چاہیے کہ ایسے پارکنگ مافیا سمیت اس میں ملوث پولیس اور بلدیہ انتظامیہ کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کریں اور شہریوں کی اس اذیت سے جان چھروائے۔ 
.................................................................................
   متعلقہ پارکنگ علاقہ جات میں پرمٹ کی حدود سے تجاوز 

(وسیم احمد رول نمبر68 )
پارکنگ مافیا حیدرآباد شہر کی حدود میں غیر قانونی طور پرقبضے کر رہی ہیںسندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد جہاں روز مرہ کی بنےاد پر گاڑیوں کی آمدورفت رہتی ہیںدوسرے شہروں سے آئی ہوئی گاڑیوں کی پارکنگ کی ذمہ داری میونسیپل کارپوریشن حیدرآباد اور کنٹومینٹ بورڈ کے رکھے ہوئے ٹھیکے داروں کی زمہ داری ہیںحیدرآباد میں قائم شہریوں کیلیئے واحد تفریح گاہ رانی باغ ہیں رانی باغ میں اندر داخل ہوتے کے ساتھ ہی پارکنگ مافیا کے ملازم کو کار ےا موٹرسائیکل کی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑتی ہیں جبکہ مقرر کی گئی پارکنگ فیس کار 20 روپے موٹرسائیکل اور رکشہ 10 روپے ہیں پر پارکنگ مافیا فی کار سے 30 روپے موٹرسائیکل اور رکشہ سے 20 روپے وصول کرتی ہیں اُس کے ساتھ ساتھ شعبدہ بازی کرکے 100 روپے زائد چارچز لگائے جاتی ہیں جبکہ شہر کے باہر سے آئے ہوئی فیملیز سے مکاری سے زیادہ چارچز وصول کیے جاتے ہیں اور جب کوئی زیادہ چارچز کی بارے میں معلوم کرے تو وہاں کی پارکنگ مافیا کے تعینات غندوں کی طرف سے گاڑی مالکان کے ساتھ جوکہ فیملی کے ساتھ تفریح کیلئے آئے ہوئے ہوتے ہیں بدتمیزی اور بدسلوکی کی جاتی ہیں اور اُنھیں کہاں جاتا ہیں کہ ہمیں مالک کی طرف سے کہاگیا ہے اور ہمارے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں جب دستاویز کی طلبی کی جائے تو دکھانے سے صاف انکار کردیتے ہے جھوٹ بولکے عوام کو بے وقوف بناتے ہے اسی طرح سے حیدرآباد کینٹونمنٹ بورڈ کے پاس حیدرآباد شہر کے خاص علاقوں کے حدود کی پارکنگ ایریا مختص کیے گئے ہے اس میں سے خاص علاقے عسکری پارک،صدر مارکیٹ ،ایس آر ٹی سی موبائل مارکیٹ،چاندنی،ڈاکٹر لائین،قائداعظم پلازہ ،رکشہ اسٹینڈ قاسم چوک کی حدود متعین ہے کینٹونمنٹ بورڈ کے ٹینڈر کے مطابق کار ،ویگن اور رکشہ کے لیے 10 روپے اور موٹر سائیکل کے لیے 5 روپے رقم مقرر کی گئی تھی جس کے دو سال گذرنے کے بعد آج تک دوسرا ٹینڈر نہیں کیا گیا ہے جب کہ اب ان حدود میں لگے ہوئے بورڈز میں کار اور رکشا کی فیس 20 روپے جب کہ موٹر سائیکل کےلیے 10 روپے فیس لکھی ہوئی ہے لیکن یہاں پے پارکنگ مافیا کی جانب سے کار سے 30 سے 50 روپے وصول اور موٹر سائیکل سے 20 روپے وصول کیے جاتے ہے کینٹونمنٹ بورڈ کے تحریری ٹینڈڑ میں واضع لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ٹھیکیدار مقرر کی ہوئی فیس سے زیادہ رقم وصول کریگا تو اس کا لائسنس رد کر دیا جائےگا اور اس کا پارکنگ ٹھیکہ ختم کر دیا جائیگاپر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج تک ایسا کوئی عمل یا کاروائی کبھی کسی ٹھیکیدار کے خلاف نہیں کی گئی جب کہ پارکنگ مافیا دن بہ دن حیدرآباد شہر کے مختلف علاقوں میں اپنا قبضہ برھا رہی ہے کو شہر کے آمدورفت کے رستوں پر رکاوٹیں پیدا کر رہے ہے جس کی وجہ سے حیدرآباد کی اہم سڑکوں پر اکثر ٹریفک جام رہتا ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی میں اسپتال کی طرف جاتی ہوئی ایمبولینسس اور دوسری گاڑیاں ان غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے راستے میں پھنس جاتی ہے اور ان میں موجود مریض کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہے خاص طور سے تلک چاڑی اور صدر مارکیٹ کے روڈ پر ہمیشہ ٹریفک جام رہتی ہیں پر وہاں پر موجود ٹریفک پولیس اہلکار بھی کچھ نہیں کرتے جس کے باعث پارکنگ مافیا بہت طاقتور ہیں پر ان کے عمل کے خلاف حیدرآباد کنٹومینٹ بورڈ خود کاروائی کرے اور غیر قانونی حدود کی پارکنگ ہٹائے اُن کو کوئی خالی میدان دیا جائے جیسے کہ پارکنگ مافیا حیدرآباد شہر کی حدود کو قبضے میں لانے کیلئے شہر کے دوکانداروں کو بھی بلیک میل کر رہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ پارکنگ مافیا کے ٹھیکیدار کسی سیاسی جماعت سے وآبستہ ہیں جن کو ایسے ٹھیکے تحفے میں ملتے ہے کہ وہ عوام کو بیوقوف بنا کر زیادہ پیسہ کمائے۔
.................................................................................
 حیدرآباد میں ہسپتالوں ہوٹلوں اور مارکیٹوں کے باہر غیر قانونی پارکنگ 

محمد نبیل

پارکنگ مافیا نے ایک بار پھراپنے پنجے حےدرآباد کے مختلف علاقوں میں گاڑ لیے ،اور اپنے خون خوار پنجوں کے ذریع حیدرآباد کے معصوم اورلاچارشہریوں کو زخمی کر رہے ہیں،حیدرآباد جو صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے،انتظامیہ کی غفلت کے باعث پارکنگ مافیا ،جو شہریوں کو لوٹ رہے ہیں ،اسی کی تحقیقات کے لیے ہم نے شہر حےدرآباد کے مختلف شہراہوں کا رخ کیا،اور پارکنگ مافیا کے کالے قرتوتوں پرسے پردا اٹھانے کی تھانی،اور ایک جامع تحقیقات کا منصوبہ تشکیل دیا،اور اسکو اپنے مختلف ٹیم میمبرز میں تقسیم دیا،جس میںمیں نے لطیف آباد کے علاقے کا نتخاب کیا،تحقیق میںہم نے لطیف آباد کے مصروف ترین علاقوں کا رخ کیا،جس میں تحقیق کے لیے ہسپتال اور بازار شامل کیے گئے،جن میں لطیف آباد کی مشہورمارکٹ ،چراغ موبائل کمپلس ،شاہین آرکڈ،جامع کلاتھ مارکیٹ،حلال احمر اور بھٹائی شامل کیے گئے،جہاں ہم نے اپنے نمائندہ کو ایک عام شہر کے بھیس میں بھیجا،تو معلوم ہو کے بھائی صاحب کو پارکنگ کے پیسے دینے پڑیںگے،ان سے سوال پوچھا گیا،یہا ں تو پارکنگ تھی ہی نہیں ،تو مختلف پارکنگ مافیا کے نمائیندوں نے اسکا جواب مختلف انداز میں دیا،لیکن سب کا ایک ہی مقصد تھا،تحقیقی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے انکو بتایا گیاکہ پارکنگ غیر قانونی ہے،یہ بلدیہ عظمہ سے رجسٹرد نہیں ہے،جس پر نمائندوں نے کہا کے یہ پارکنگ رجسٹرد ہے،جب ان سے رجسٹرد کا ثبوت مانگا گیا تونمائندوں نے اس کی جعلی پرچی دکھائی،لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ آپ کی پرچی دوسری پارکنگ کی پرچی سے مختلف ہے،جو کے جعلی ہے،اور بتایا گیا کے اگر اپکی پارکنگ بلدیہ عظمہ سے رجسٹرد ہو تی تو دونوںپرچی ایک جیسی ہونی چاہیں تھی،جو کے سرکاری پریس سے پرنٹ کی جاتی ہونگی۔ اسکے بعد پند نمائندوں نے اسکا اعتراف کیاکہ مختلف جگہوں پر مختلف لوگ سرکاری نمائندوں کی ملی بھگت سے پارکنگ کا ٹھیکا لیتے ہیں،اور اپنے نمائندوں ملازمت دیتے ہیں،تحقیق کے دوران مختلف پارکنگ کے نمائندوں سے معلوم کیا گیاکہ یومیہ کتنے پیسے ملتے ہیں،کسی نے کہا پانچ سو،سات سوتو کسی نے کہا کے آٹھ سو روپے،جس میں ٹھیکے دار کی طرف سے کھانا اور چائے کے پیسے بھی علےدہ سے دیے جا تے ہیں،تو کسی نے کہا کہ ٹھیکیدار سرکاری نمائندوں سے مل کر پارکنگ کا ٹھیکا لیتے اور پھر دوسروں کو ٹھیکے پر دے دیا کرتے ہیں،تو کسی نے بتا یا کے سیزن میں ٹھیکے کے دام بڑھ جاتے ہیں اور پارکنگ کو وسیع کر دیا جاتا ہے،خاص کر کے مذہبی تہواروں پر ،جس میں عید ،بقراعیداور رمضان کا مہینہ شامل ہے،تحقیق کے دوران عام عوام کی رائے لی گئی،توان کا کہنا تھا کے انکو پارکنگ کے پیسے نا دیے جائیںتو عوام کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کبھی انکی گاڑی پنکچر کردی جاتی ہے تو کبھی ٹائر سے ہوا نکال دی جاتی ہے تو کبھی یہ بدزبانی پر اترآتے ہیں،اور فیملی کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں،حےدرآباد کا ریٹ کچھ یوں ہے،موٹر سائیکل دس روپےکار بیس روپےکچھ لوگ اپنے دس بیس روپے بچانے کے لیے موٹر سائیکل اور کار کو غلط پارک کر دیتے ہیں،جس کے باعث ٹریفک جام اور حادثات کا منہ دیکھنا پڑھتا ہے،اگر حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے پورا کریںاور شہر مےں کراچی ترز کا پارکنگ پلازہ جےسے اقدامات کر دیے جاے تو ناصرف بلدیہ عضمہ کو اس سے فائدہ ہوگابلکے شہر مےں ٹرےفک کے نیظام پر بھی قابو پانے مےں آسانی ہو گی نا صرف یہ بلکے شہر میں پارکنگ مافےہ سے بھی چھٹکارہ حاصل ہوگا ، اور غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات سے بچا جا سکتا ہے بلکہ شہریوں کا نقصان جو انکو ناجائز پارکنگ نہ دینے پر اداکرنا پڑھتے ہیںان سے بھی بچا جا سکتاہے،

.................................................................................

شہر حیدرآباد میں بلڈرز حضرات کا نئے تعمیر شدہ عمارتوں کے نقشوں میں پارکنگ ایریا ظاہر کرنے کے باوجود پارکنگ ایریا نا بنانا
(شاہ رخ شیخ رول نمبر 71 )

شہر حیدرآباد جسکی آبادی تقریباً 25 لاکھ ہے جہا ں روز بہ روز نئی نئی عمارتیں بڑی تیزی اور تسلسل سے تعمیر کی جا رہی ہیںجسکی وجہ سے شہر حیدرآباد کو ٹریفک جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہیں جسکی سب سے بڑی وجہ عمارتوں،مارکیٹوںاور ہوٹلزکیلئے پارکنگ ایریا کا مختص نا ہونا ہیں جبکہ جائز پارکنگ نا ہونے کے باوجود لوگ غیر قانونی پارکنگ زون میں اپنی گاڑیاں پارک کردیتے ہے جس سے ٹریفک کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہیں حالانکہ بلڈرز حضرات اپنی بنائی ہوئی عمارتوں کے نقشوں میں پارکنگ ایریا تو ظاہر کردیتے ہیں مگربجائے اُسے تعمیر کرنے کے وہ اُسے صرف نقشوں تک ہی محدود کردیتے ہیں جسکی وجہ سے اُن عمارتوں کے رہائشی اپنی گاڑیاں باہر روڈ پر ہی کھڑی کردیتے ہیں جس سے اُنھیں اپنے مالی نقصان کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہیںجبکہ سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کے نقطہ نظر سے بلڈرز حضرات کو اپنی بنائی ہوئی عمارتوں کے ساتھ بڑی اور کھلی جگہ کے علاوہ مناسب کار پارکنگ ایریا ڈیزائن کرنے کا بھی حکم ہیںمگر بجائے وہ ایسا کرنے وہ مزید بقیہ جگہوں کو بھی کمرشلائز کردیتے ہیں اس کے علاوہ ہوٹلز مالکان بھی اسی سمت میں چلتے ہوئے بجائے اپنی مخصوص پارکنگ ایریا بنائے اپنی من مانی کرتے ہوئے باچا خان پل کے نیچے اپنے اپنے نا جائزپارکنگ ایریاز مختص کردئیے ہے جبکہ شہر سے باہر آنے وا لے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کے لیے گاڑی پارک کرنا بڑا مسلئہ ہوتا ہے ہوٹلز انتظامیہ جنہیں اپنی سروسز فراہم کرتے ہوئے بیچ سڑک پل کے نیچے گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ مہیا کرتی ہے اس کے عیوض وہ اپنے کسٹمرز کی توجہ حاصل کرتی ہے مزید تحقیق کرنے سے یہ پتہ چلا کہ شہر حیدرآباد میں جن بڑی عمارتوں میں پارکنگ کے مسائل ہیں اُن میں قائداعظم اسکوائر،طیب کمپلیکس،ایس آر ٹی سی مارکیٹ،کوہ نور پلازہ و دیگر کئی عمارات شامل ہیں اسکے علاوہ سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کے تحت رہائشی و کمرشل جگہ کا 1200Sq.ft حصہ مختص ہیں جبکہ بقیہ حصہ پارکنگ کے لیے مختص کیا گیا ہے تا کہ اسے متعلقہ قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا جائے جبکہ اسکے طول و عرض کے پلاٹ پر تمام عمارتوں جہاں کار پارکنگ کے ڈیزائن کی کوئی جسمانی جگہ ہو ایسی صورت میں PCATP اور C.O.Bنمائندے پارکنگ ایریا کے مختص ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرینگے جبکہ اُن کا کیا ہوا ہر فیصلہ حتمی ہوگاجبکہ دوسری جانب مختلف بینکوں کی عمارت کا بھی بُرا حال ہیں جہاں گاڑیاں پارک کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے جسکی وجہ سے بینکوں میں آئے ہوئے لوگ اور بینک ک دیگر افراد اپنی گاڑیاں مین روڈ پر ہی پارک کردیتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی میں بھی خلل پڑتا ہیںسندھ گورنمنٹ اور سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کو چاہےیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے پورا کریںاوران لوگوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیںاور شہر مےں کراچی ترز کا پارکنگ پلازہ جےسے اقدامات کر ے تو ناصرف بلدیہ اعلیٰ کو اس سے فائدہ ہوگابلکے شہر مےں ٹرےفک کے نظام پر بھی قابو پانے مےں آسانی ہو گی نا صرف یہ بلکے شہر میں پارکنگ مافےہ سے بھی چھٹکارہ حاصل ہوگا ، اور غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات سے بچا جا سکے گااور شہریوں کا نقصان جو انکو ناجائز پارکنگ نہ دینے پر اداکرنا پڑھتے ہیںان سے بھی بچا جا سکے گا۔

.................................................................................
پارکنگ مافیا کو بااثر افراد کی سرپرستی
            نام ۔        مُنعِم علی خان
            رول نمبر ۔    43ایم اے پریویس
            سمسٹر ۔    دوسرا
            ڈپارٹمنٹ ۔    ماس کمیونکیشن
انسان کی زندگی میں اصول و ضوابط بہت ضروری ہیں یہ وہ اہم عناصرہیں جن کی بنیاد پر انسان کی ترقی کادارومدارہے ، ان کے بغیر آگے بڑھنے کا تصور محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں ایک قانونی نظام ہے جس پر عمل کرنا اور کروانا ریاست کی ایک اہم ذمہ داری ہے مگر ایسا معلوم ہوتاہے کہ مملکت خداد پاکستان میں روز اول سے قانون کانفاذ صحیح طرح سے نہ ہو سکا اورشایدیہی ہے بہت سے اہم وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے کہ جس کے باعث ہم دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہیں ۔ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی طرح حیدرآبادمیں ٹریفک جام اورغیر قانونی پارکنگ ایریاز دن بہ دن سنگین مسئلے بنتے جا رہے ہیں ۔ایساہونے پر حیرانگی نہیں ہونی چاہےے جبکہ تقریباً پورے شہر میں ایک ہی واحد ٹریفک سگنل ہے جو کہ صدر کے چوک پر واقع ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بھی مکمل طور پر کام نہیں کر رہا ہے ۔ جہاں تک غیر قانونی پارکنگ کی بات آتی ہے تو اس میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بھی نا اہلی شامل ہے ۔ متعلقہ ادارے جن میں بلدیہ حیدرآباد ، ایچ ڈے اے اور ٹریفک پولیس شامل ہے ، اپنی ذمہ داری صحیح طرح سے ادا نہیں کر رہے ہیں جس کی بنا پر تقریباً پورے شہر میں آپ غیر قانونی پارکنگ ایریا ز کو دیکھ سکتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ٹھیکیداروں سے استفسار کرتا ہے تو وہ اپنے علاقے کو قانونی پارکنگ ایریا بتا کر بات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بغیر متعلقہ اداروں کی اس میں ناجائز شمولیت اور ناجائز سیاسی سرپرستی کے بغیر ہی ایسے ایریاز کو پارکنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہو ۔ ہماری دیگر ممبران کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے پارکنگ مافیا کو بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے ۔ہمارے تحقیقی علاقاجاتلطیف آباد، چاندی اور حیدرآباد کے دیگر کاروباری علاقاجات شامل ہیں۔ ارباب اختیار پر اب یہ ذمہ
 داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو اس ناجائز سہولت اور پارکنگ مافیا سے نجات دلائیں اور پورے شہرحیدرآباد کیلئے منظم ٹریفک اور پارکنگ کا نظام متعارف کرواکر اس پر عمل در آمد کروائے ورنہ شہریوں کا قیمتی وقت بھی
 ضایع ہوتا رہے گا اور روز مرہ کے حادثات میں تیزی آتی رہے گی ۔

3849 words

 ----------------------------------------- 
Outline
حیدرآباد میں جائزپارکنگ کا فقدان اور غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج 
.1متعلقہ پارکنگ علاقہ جات میں پرمنٹ کی حدودسے تجاوز:۔ 
۔پارکنگ ایریاز میں نا جائز پارکنگ فیس وصول کرنا
۔پارکنگ ایریاز کی مقررہ حدود کے بارے میں معلوم کرنا
۔پارکنگ ایریاز میں زبردستی غنڈہ گردی کر کے پارکنگ فیس وصول کرنا
(Waseem Ahmed M.A Previous Roll no 68)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.2مناسب پارکنگ انتظامات نہ ہونے پر شہریوں کو در پیش مشکلات اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی:۔
حیدرآباد جو صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر بھی کہلایا جاتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شہری آبادی تقریباََ25 لاکھ ہونے کے علاوہ اس میں ٹرانسپورٹ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے باعث حیدرآباد میں پارکنگ ایریاز کا فقدان ہیں۔
(Muhammad Nabeel M.A Previous Roll no 40)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.3حیدرآباد میں مختلف مقامات میں ناجائز پارکنگ ایریاز کی بھرمار:۔
۔سندھ کا دوسرابڑا شہر 25 لاکھ آبادی پر مشتمل حیدرآباد جہاں ناجائز / غیرقانونی پارکنگ میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے انتظامیہ حکام کی خاموشی کیوجہ سے لوگوں کیلئے منافعہ بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
۔نا جائز پارکنگ مافیاز میں نجی ہوٹلز کی پارکنگ،مارکیٹس کی پارکنگ ،اسپتال کی پارکنگ شامل ہے۔
۔کتنے نجی ہوٹلز میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
۔کتنے اسپتال میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
۔کتنی مارکیٹس میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
(Wasique Ahmed M.A Previous Roll no 70) 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.4کمرشل بلڈرز کا تعمیری نقشوں میں پارکنگ ایریاز ظاہر کرنے کے باوجود پارکنگ نہ بنانا:۔
شہر حیدرآباد میں سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول اٹھارٹی اور حیدرآباد ڈویلپمینٹ اٹھارٹی کے تحت بلڈرز حضرات اس بات کے پابند ہے جس کے تحت وہ اپنے بنائے ہوئے تعمیری پروجیکٹ اور رہائشی و کمرشل جگہاؤں پر پارکنگ ایریاز کی تعمیر کرائے۔
۔حیدرآباد میں پلاٹ ،بلڈنگ اور پلازہ کی تعداد کتنی ہے جہاں پارکنگ کا نظام ہو۔
ان بلڈرز حضرات کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔
(Shahrukh Shaikh M.A Previous Roll no 71) 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.5پارکنگ مافیا کوبااثر افراد کی سرپرستی:۔
مختلف مقامی سیاسی جماعتوں کی نا جائز سرپرستی۔
بلدیہ اعلیٰ کی اس پر مجرمانہ خاموشی۔
غیر قانونی ٹھیکہ داروں کی اس میں شمولیت۔
(Munim Ali M.A Previous Roll no 43)

غیر معیاری ادویات

This is like article, or hearsay. no quotes attribution from concerned people, otherwise its hearsay, which has no authenticity. 

 Quotations from  related people, experts etc required. 
What new thing interesting was found? no mention.
Pictures and graphs etc.  
This is report, 5Ws and 1H applies on it. that is also missing
No proper paragraphing 
 Figures facts needed
Fareena: Many proof and composing mistakes
انویسٹگیشن رپورٹ
ایم۔اے۔ پریویس  گروپ
گروپ ممبرز:  حور خان، ثناءشیخ، ماریہ شیخ، فارینہ اسلم، فاریہ منصور۔

انویسٹگیشن مین ٹاپک:  غیر معیاری ادویات


تعارف
اگرکوئی انسان انسانیت اور احساس کے مقام سے گرجائے توپھر وہ حیوان سے بدترہوجاتا ہے۔ایک شیردوسرے شیر جبکہ ایک کتادوسرے کتے کا گوشت نہیں کھاتا مگر عہدوحاضر کے انسان ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔عہدو جہالت میں لوگ صرف اپنی بیٹیوں کو زندہ درگورکیاکرتے تھے مگرآج طاقتورمافیا کمزورانسانوں کو زندہ زمین میں گاڑرہے ہیں ادویات اورصحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کے بجائے زندگی چھین رہے ہیں ہماراملک دنیا کے ان چند ممالک میں شمارکیا جاتا ہے جن میں صحت کا بجٹ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ہمیں ہر سال زیادہ اسپتالوں زیادہ ڈاکٹروں اور زیادہ نرسوں کی ضرورت پڑتی ہے ملک میں ادویات کا کاروبار تیزی سے ترقی کررہا ہے ۔پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایساکیوں کہ ہمیں ہر سال زیادہ اسپتالوں اور ڈاکٹرکی ضرورت پڑتی ہے ۔اس کی بڑی وجہ دن بدن پھیلنے والے امراض میں اضافہ ہے ۔پاکستان میں ٹی بی بھی دوبارہ سراٹھارہی ہے ہم پولیومیں بھی خطرناک ملک بن چکے ہیں ۔ہمارے بچے سانس کی بیماریوں کے شکاربھی ہیں۔ہم امراض قلب میں بھی سرخ لائین کے اوپر ہیں۔ملک میں ایڈزبھی تیزی سے پھیل رہا ہے اورہم شوگرمیں بھی دنیامیں چوتھے نمبر پر ہیں چناچہ ہم من حیث القوم بیمارہیں جہاں مختلف امراض میں اضافہ ہورہا ہے وہیں ادویات کی عدم دستیابی ان امراض کو ختم کرنے میں اہم کرداراداکرتی ہیں پھر جب معیاری ادویات کا شمارغےرمعیاری ادوایات میں ہونے لگے تووہ دوائیں مرض کو ختم نہیں بلکہ انسان کو موت کے گھاٹھ اتاردیتی ہیں پاکستان کا شمار دنیاکے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خطرناک حد تک معیاری ادویات کی عدم دستیابی اور جعلی و نقلی ادویات کی تیاری کاروبار ایک طاقتورمافیا کی شکل اختیارکرگیا ہے ۔آج کی تاریخ میں نقلی و غیر معیاری ادویات کا چلن عام ہے غیرمعیاری ادویات کی خریدوفروخت میں شدت سے اضافہ ہونے کے باعث یہ اب لوگوں کی جان لینے پر مبنی ہوتا جارہا ہے ۔صحت کا شعبہ کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔وہیں حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں جعلی ادویات سے وابستہ عناصربے خوف پیسہ بنا رہے ہیں ۔جس میں ڈاکٹرزبذاتِ خود جوکہ مریضوں کے رہنمامانے جاتے ہیں ساتھ ہی اس کام میں ملوث مافیاکوہمت اور دلیری دینے والے ہمارے متعلقہ ادارے ہیں ہیں محکمہ صحت اورمتعلقہ ادارے اس مسئلے کی تشبیر سے دستبردارہوئے بیٹے ہیں ۔جوکہ رشوت اور منتھلیاں لیکر خاموش ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ تنسیخ شدہ دوائیں اور ان کی فروخت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کے ذمہ دار نہ صرف دوکانداربلکہ مریض بھی ہوتا ہے جوبغیر تاریخ تنسیخ دیکھے دوائیں خریدلیتے ہیں۔اگر مجموعی طورپردیکھا جائے تومیڈیکل ایسوسی ایشن کا کام معاشرے میں ہونے والی بے ایمانی اور غیرمعیاری ادویات کی روک تھام ہے مگرافسوس کی بات ہے کہ میڈیکل ایسوسی ایشن جیسے ادارے بھی اپنے فرائض صحیح طریقے سے سرانجام نہیں دے رہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ محکمہ صحت اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں معیاری اور غیرمعیاری دواﺅں میں فرق سمجھنے کا شعور پیداکریں۔
مجموعہ
دوکانوں پر جعلی ادوایات جبکہ گلی محلوں میں عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار حکومت اور متعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ پر اورکارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔جہاں حکومت کی بنیادی آئینی ذمہ دری ہے کہ وہ عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرے وہیں غیر معیاری ادویات اور جعلی و نقلی ادویات کی خریدوفروخت میں اضافہ اس بات کی تشریح بھی کرتاہے کہ یہ بھی محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے کی غیر ذمہ داری ہی ہے جو آج ڈرگ مافیا سرِ عام معصوم عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں دوائیوں کے نام پر زہربیچاجارہا ہے ۔اس کے علاوہ زاہدالمیعاد کاکاروبار بھی زورپکڑ گیا ہے۔یہ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھے۔جعلی ادویات بنانے اوربیچنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے،حکومت سے التماس ہے کہ جعلی ادویات کی فروخت کی روک تھام کے لئے مو ¿ثراقدامات کرے اور اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیں ساتھ ہی حکومت کو چاہئے کہ محکمہ صحت اورمتعلقہ اداروں کو کرپٹ لوگوں سے پاک صاف کریں اورایسے ذمہ داربندوں کو عوام کا محافظ بنائے جو اپنی ذمہ داریاں اورفرائض صحیح طریقے سے سرانجام دیں ساتھ ہی لوگوں میں معیاری اورغیرمعیاری دوائیوں میں فرق سمجھنے کا شعورپیداکریں تاکہ مریض دوائیں خریدنے سے پہلے پوری جانچ پڑتال کرلیں ۔اسی طرح اگرہم ترقی یافتہ قوم بنناچاہتے ہیں توپھر ہمیں لوگوں کی صحت پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ دنیاکی کوئی بیمار قوم ترقی یافتہ نہیں ہوسکتی۔

......................................................................................

   جعلی ادویات اور ان کے منفی اثرات (یونٹ نمبر:۱)

 ثناءشیخ
رول نمبر:۵۵
کلاس     ایم اے (پریویس)

   نیا زخم پرانے زخم کے درد کو بھلا دیتا ہے یہ ایک عربی شاعر کے دیوان سے اخذ کیا ہوا مصرعہ ہے جو آج کے موضوع کے حوالے سے یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے پاکستان کا شمار دنےا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خطرناک حد تک معےاری ادوےات کی عدم دستیابی اور جعلی و نقلی ادویات کی تیاری کا کاروبار ایک طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے آج کی تاریخ میں نقلی و غیر معیاری ادویات کا چلن عام ہے دوائی بیچنے والے زہر بیچتے ہے ادویات اور صحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کے بجائے زندگی چھین رہے ہے حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں جعلی اور غیر معیاری ادویات سے وابستہ عناصر خوب پیسہ بنارہے ہیں اور اس گورکھ دھندے کی لگام کسنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا جارہا ۔پاکستان میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ایک منافع بخش تجارت بن گئی ہے جعلی اور جان لیوا ادویات پورے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے پاکستانی عوام اپنے بجٹ کا 77 فیصد حصہ ادویات خریدنے پر صرف کرتی ہے WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 30 سے 40 فیصد میڈیکل اسٹورز نقلی ادویات ہوتی ہیں WHO کے مطابق پاکستان میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں 13 وے نمبر پر ہے جہاں نقلی اور غیر معیاری ادویات تیار کی جاتی ہے ان جعلی ادویات کے استعمال سے ہمارے ملک میں مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلتی جارہی ہے اور ان جعلی ادویات کی بڑی مقدار کراچی،ملتان،لاہور اور راولپنڈی میں تیار کی جاتی ہے۔
   صوبہ سندھ میں کراچی کے بعد سب سے بڑی ڈرگ ہولسیل مارکیٹ حیدرآباد میں واقع ہے جو کہ تقریبا 150 بڑی دکانوں پر مشتمل ہے جہاں غیر معیاری اور غیر معروف دوائی کمپنیوں کی رسائی مارکیٹ تک بلا روک ٹوک جاری ہے اس سارے غیر قانونی عمل کی روک تھام کے لیے پاکستان ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے ایک محکمہ قائم ہے جس کا کام مارکیٹ سے دوائیوں کے نمونے اٹھانے ،انہیں متعلقہ لیبارٹیوں کو بھیجنے اور اگر کسی دوائی کے بارے میں منفی رپورٹ آجائے تو اس دوائی کو بنانے اور مارکیٹ میں لانے والی کمپنی کے خلاف ایکشن لینا ہے لیکن زمینی سطح پر اس محکمے کا کام صرف لائسنس کی اجرائی ہی رہ گیا ہے۔حیدرآباد ڈویزن جو کہ 6 اضلاع پر مشتمل ہے اور ہر ڈسٹرکٹ میں ایک ڈرگ انسپیکٹر تعینات کیا جاتا ہے جس کا کام ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے یہ جعل ساز مافیا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جعلی دوائیں بنانے کا کام کر رہے ہے مگر افسوس کی بات ہے محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ ادارے رشوت اور منتھلیاں لیکر خاموش ہوجاتے ہے اور اس کا خمیازہ غریب مجبور عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
    حیدرآباد کے میڈیکل اسٹورز پر مضر صحت ،غیر معیاری اور ناقص ادویات سر عام فروخت ہو رہی ہے جن کے استعمال سے سالانہ ہزارو افراد موت کے منہ میں جارہے ہے ۔اس وقت مارکیٹ میں نشہ آور ادویات،جعلی ادویات بلخصوص کف سیرپ ،گولیاں اور مختلف ناموں کی نشہ آور ادویات کی بھرمار ہے جس کو نوجوان ہی نہیں عمر رسیدہ افراد بھی استعمال کررہے ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ زائدالمیعاد ادویات کی خرید و فروخت میں بھی اضافہ ہو تا جارہا ہے جس کے نہ صرف دکاندار ذمہ دار ہے بلکہ عوام بھی برابر کی شریک ہے جو بنا دیکھے ادویات خرید کرتی ہے اور ان مافیاز کی حاصلہ افزائی کرتی ہیںاس کے علاوہ ہولسیلر زیادہ چلنے والی دواﺅں کو اسٹو ر کرلیتے ہے اور بعد میں ادئیوں کو مہنگے داموں بیچتے ہے۔
    پاکستان میں جعلی اور زائدالمعیاد ادویات کا کاروبار زور پکڑ گیا ہے سرکاری ادویات کو زہر بناکر بیچہ جارہا ہے دوا نہ ملنے سے بھی موت اور دوا ملنے سے بھی موت غریبوں کے نام ملنے والی کروڑوں روپے کی ادویات مسحقین تک پہنچنے سے پہلے ہی تبدیل کرلی جاتی ہے سرکاری دوائیوں کا لیبل تبدیل کرکے بازاروں میں بیچا جا رہا ہےاور اس کاروبار کا پورا کا پورا منظم نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے سرکاری ہسپتالوں کی بات کی جائے تو وہاں بھی انسانی زندگیوں کے ساتھ گھناونا تھیل جاری ہے مریض جہاں ڈاکٹر کو اپنا محافظ سمجھتے ہے وہی ڈاکٹر ز ان مریضوں کے لیے ایک قاتل کا کردار ادا کر رہے ہے ۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جو ادویات مریضوں کو مہیا کی جاتی ہے وہ 75 فیصد جعلی ہوتی ہے اس کام میں صرف ڈاکٹرز نہیں بلکہ پوری کی پوری انتظامیہ ملوث ہے دکانوں پر جعلی ادویات جبکہ گلی محلوں میںعطائی ڈاکڑز کی بھرمار حکومت اوراور متعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ پر ور کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی اور آئینی ذمہ داری ہے یہ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھے جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے اور اس کاروبار سے وابستہ درندوں کےخلاف فوری اور سخت ایکشن لے جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے باز نہیں آتے۔

......................................................................................

 محکمہء صحت اور متعلقہ اداروں کی غیر ذمے داریاں  یونٹ نمبر۲

 حور خان
رول نمبر:۴۳
     ایم اے  پریویس

غیر معیاری ادویات کی خریدوفروخت میں شدت سے اضافہ ہونے کے باعث یہ عمل اب لوگوں کی جان لینے پر مبنی ہوتا جا رہا ہے یہ ایک ایسا سنگین مسلہ بنتا جا رہا ہے کہ جس میں ڈاکٹرزبذات خود جو کہ مریضوں کے رہنما مانے جاتے ہیں اور ساتھ ہی میں محکمہءصحت اپنی گمراہی اور لاپر واہی کی حدوں کو پار کرتے نظر آ رہے ہیں جعلی ادویات بنانے والے کرپٹ اداروں کو اتنی ہمت اور دلیری دینے والے بھی خود غرضی کا شکار ہیں مختلف کلینکس اور میڈیکل اسٹورز جہاں اس طرح کے کام زوروشور سے چلتے آرہے ہیں اور کئی جان لیوا واقعات بھی پیش آئے مگر وقتی سزائیں دے کر ان گورک دھندا کرنے والوں کو پھر سے آذاد چھوڑ دیا جاتا ہے انسانی جانیں کیا اتنی سستی ہو گئی ہیں۔حیدرآباد یونٹ نمبر۱۰ میں واقع یثرب کلینک میں اپنا فرض بخوبی انجام دینے والے ڈاکٹر شعیب احمد کے طفیل یہ کچھ باتیں سامنے آئیں جعلی ادویات کی بدولت جان گوا دینے والے لوگوں میں ذیادتی گاوں کھیڑوں میں بسنے والے لوگوںکی ہوتی ہے کیونکہ ان کی معصومیت اور بے عقلی انہیں لے ڈوبتی ہے۔
جولی ادویات بنانے والے اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ اصل اور نقل کا فرق سرے سے ختم ہی ہو گیا ہے اور ان جعلی ڈرگز میکرز کو کس نے ماہر کیا۔یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ فارمسٹ اور میڈیکل ریپک کے لوگوں کا بھی بڑا کردار سامنے آیا ہے ادویات بنانے کی مہارت ایک فارمسٹ سے زیادہ کسی کو حا صل نہیں یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا کہ کس قسم کی ادویات بنانے میں کس قسم کا فارمولا استعمال کیا جا تا ہے اور اگر کسی سنگین بیماری کی ادویات جو کہ مریض کی خرید میں نہ ہو تو اسکی نعمل بدل کی تجویز کا کام بھی ایک فارمسٹ ہی کر سکتا ہے تو اس کے لئے کیا مشکل کہ وہ ایک آریجنل دوا میں استعمال ہونے والے فارمولاز کی ہیرا پھیری کر کے اس فارمولے کا نعمل بدل بنا کے جعلی دوا کا انتخاب کر لے کوئی بھی دوا محکمہ صحت اور سرکاری اداروں سے اپرومنٹ اسٹیمپ کے بغیر بازاروں میں بکنے کے لئے نہیں جا سکتی مگر بلیک میں ان دواوئںکو اسٹورز تک پہنچا دیا جاتا ہے محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے اس مسلے کی تشہیر سے دستبردار ہوئے بیٹھے ہیں کیونکہ یہ ادارے تزبذد کا شکار ہیں یہ ادارے خود لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں کیونکہ بہت سے سرکاری ادارے خود بھی اس کرپشن میں شامل ہیںتگڑا معاوضہ دے کر ان اداروں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے گرم جیبوں کی تپش نے ان ادارے کے لوگوں کے ظمیر سیاہ کر دئے ہیں کم پیسوں میں نقلی دوائیں بنوا کر باقاعدہ اپرووڈ کروا کے بچا ہوا سرمایہ اپنے جیب کی زینت بنائی جا رہی ہے کوٹری بلاڑی کے ایک گورنمنٹ ہسپتال میں حال ہی میں چند ڈرگز انسپیکٹر کا چھا پا پڑا جہاں ہیپا ٹائٹس کی دوائیں با قاعدہ پیسوں میں بیچی جا رہی تھی جبکہ ہیپا ٹایٹس کی دوائیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں ضرورت مند مریضوں کو حیدرآباد لطیف آباد میں واقع شہباز بلڈنگ جہاںڈائریکٹر آف میڈیکل اسوسئیشن کا آفس ہے وہاں ڈرگز انسپیکٹرز بوقت موجود رہتے ہیں ان سے مل کے بات کرکے یہ ساری معلومات سے آراستہ ہوئی چند ادارے اب بھی ہیں جو اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں مگر ہر علاقے ہر ٹاون کے متعلقہ اداروں کو سبق دوشی سے کام لینا ہو گا جہاں زرا سا بھی شک پیدا ہو فوراًاس جگہ کا دورہ کیا جائے ورنہ ان غیر معیاری ادویات کا کاروبار عروج پے رہے گا کیونکہ سرکاری اور نیجی ادارے بلکل غیر زمے داری کے مظاہرے پے ا ±ترے ہوئے ہیںان کی غیر ذمے داریوں کا لو گوں اور ان کی زندگیوں پر کس قدر اثر پڑ رہا ہے بیماریاں زندگی کا حصہ ہیں اور ڈاکٹرز مریضوں کے رہنما محکمہ صحت انسانی صحت کی حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن اگر یہی لوگ انسانی صحت اور انسانی جانوں کے ساتھ تجربے کریںگے تو کون ہو گا مریضوں کا حامی و ناصر کون بھرے گا ان غیر ذمے داریوں کا اضالہ۔

......................................................................................
میڈیکل ایسوسی ایشن کی ذمہ داریاں (یونٹ نمبر۳)
500 + words
نام:فاریہ مسرور
رول نمبر:۳۲
کلاس :ایم اے (پریویس)

پاکستان میں میڈیکل ایسوی ایشن کے فرائض کی انجامی ہم سب کی زندگیوں کی ضمانت ہے اور یہی ایک روشن مستقبل اور صحت مند پاکستان کی علامت ہے لیکن حیدرآباد میڈیکل ایسوسی ایشن کی ذمہ داریاں کچھ اپنی مثال آپ ہیں۔ کیونکہ حیدرآباد میڈیکل ایسوسی ایشن میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو کہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا باعث ہیں سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں ناقص اور مضر صحت ادویات استعمال کرکے اپنے زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اس بات کو بھنک تک نہیں کہ حیدرآباد شہر، شہر موت بنتا جارہا ہے سندھ کا دوسرا سب سے بڑا شہر حیدرآباد لاپرواہی کی بھیٹ چڑھ گیا ہے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی پہ بدقسمتی ہے کہ جعلی دوائیاں فروخت کرنے والوں کی سزا 1976کے ڈرگ ایکٹ کے تحت صرف 7سال ہے لیکن آج تک کسی بھی ملزم کو اس سزا کا مرتکب نہیں پایا گیا۔
    اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میڈیکل ایسوسی ایشن کا کام معاشرے میں ہونے والی بے ایمانی اور غیر معیاری ادویات کی روک تھام ہے۔
    لیکن اگر ہم حقیقی جائزہ لیں تو ہر طرف صحت کو لیکر مشکل اور پریشانی ہی دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان کے ہر خاندان کا ایک فرد کسی نہ کسی چھوٹی یا بڑی بیماری میں مبتلا ہے اس کا یہی مطلب ہوا کہ میڈیکل ایسوسی ایشن اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام نہیں دے رہا ۔
    گورنمنٹ ہسپتالوں کا حال ایسا ہے کہ خیراتی ہسپتالوں کی مانند ہے نہ تو ڈاکٹروں کی سہولتیں موجود ہیں اور نہ دوائیاں موجود گورنمنٹ فراہم بھی نہیں کرتی ہے ہے انہیں کچھ بے ایمان ملازمین لالچ کی بنا پر میڈیکل اسٹور میں اپنے منافع کے لئے فروخت کردیتے ہیں۔
    مزید ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد کے مختلف علاقے جیسے حالی روڈ، ذیل پاک ، مارکیٹ میں لوگوں نے جعلی دواﺅں کا کارخانے کھول رکھے ہیں۔
    چند میڈیکل اسٹورز مالکان اپنے مفادات کو بلندیوں تک پہنچانے کے لئے غیر معیاری اور جعلی دوائیں فروخت کرتے ہیں جس سے انہیں ماہانہ 30%فیصد تک منافع ہوتا ہے ۔
    سقیہ حادثات جو کہ ایمرجنسی کے لئے 24گھنٹے الرٹ رہتا ہے جہاں گورنمنٹ کی جانب سے لاکھوں روپے مالیت کی دوائیں فراہم کی جاتی ہیں وہیں غریب عوام ایمرجنسی کی صورت میں دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں ۔روز کی بنیاد پر 10میں سے 8مریضوں کو ادوایات خریدنے کے معاملات ہیں ۔
    جن دواﺅں کو گورنمنٹ کی طرف سے فروخت کرنے پر پابندی ہے وہیں حیدرآباد کے 11میڈیکل اسٹور پر وہ دوائیں فروخت کی جاتیں ہیں۔
    میڈیکل ایسوسی ایشن کو چاہتے کہ وہ اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ سر انجام اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کریں۔
   
دوستوں سے انٹرنیٹ سے
غلام قادر تھیبو Cumhsکے میڈیکل Supridentہیں
جرنل فزیشن ڈاکٹر شائستہ
Base Reporting
قربان پنور (Reporter of Awar)
شاہد لغاری نوری آباد Drug Inspector
میرل بھٹو (civil hospital Kotri)Police Officer
رویال میڈیکل اسٹور کوٹری شاہد /تنویر Chemist
مرکز صحت حیدرآباد لطیف آباد نمبر 10۔


......................................................................................

تنسیخ شدہ دوائیں اور ان کی فروخت (یونٹ نمبر۴)

ماریہ شیخ
رول نمبر:۴۳
کلاس     ایم اے پریویس

 انسانی زندگی میں مرض وادویہ لازم و ملزوم ہیں۔ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ مرض کے حساب سے دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ اور وہ دوائیں ہمےں شفایاب کرنے کا ذریعہ ہیں لیکن اگر یہی دوائیں جو منسوخ تاریخ کے ساتھ ہمےں دے دی جاتی ہیں تو وہ موت کا باعث بن جاتی ہےں لہذا دوا خریدتے وقت اس کی تاریخ تنسیخ ضرور دیکھ لیں۔
    ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق تنسیخ شدہ دوائیں جس مےں کئی قسم کے مزید امراض کا باعث بنتی ہیں جیسے کہ کسی بھی قسم کی الرجی ، پیٹ کی کئی تکالیف الٹی دست وغیرہ اور اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو وہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ان دوا ¶ں کی فروخت کے اصل ذمہ داری میڈیکل اسٹور کے مالکان ہیں جن کو صرف دوا ¶ں کی فروخت سے سروکار ہوتا ہے انسانی زندگیوں سے نہیں اور وہ ایسا یوں کرتے ہیں کہ ان کے پاس جن ادویات کی فروخت نہےں ہوتی اور وہ کافی مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں اور ان کی استعمال کی تاریخ گزر جاتی ہے تو وہ اس کو پہلے بیچتے ہےں تاکہ ان کا مال نکل جائے چاہے اس کے بدلے مےں کتنی ہی انسانی زندگیاں ختم ہوجائیں پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر بھی لاگو ہوتی ہے جو اس جرم مےں برابر کی شریک ہوتی ہے اگر حکومتی سطح پر اس جرم کو پکڑا جائے تو کبھی بھی انسانی زندگیوں کا ضائع نہ ہو تنسیخ تاریخ کی دوائیں خاص طور پران ہیں جہاں غربت اور جہالت نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہےں وہ غریب لوگ ان دوا ¶ں کا مستقل استعمال کرتے ہےں اور کئی سنگین قسم کے امراض مےں مبتلا ہوجاتے ہیں اور آخر کار موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سر کاری ہسپتالوں میں یہ ادویات استعمال کی جاتی ہیں جہاں کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہےں ہوتا ۔آج پسماندہ علاقوں مےں بیمار یاں ، تکالیف کی اصل وجہ یہ ہی دوائیں ہیں جو مرض کو کم کرنے کے بجائے بڑھانے مےں مددگار ہوتی ہیں۔
   رپورٹ کے مطابق حال ہی مےں لےاری جنرل اسپتال مےں تنسےخ شدہ دواﺅں کو لےکر پڑنے والا چھاپا ہے جس مےں ٹرک بھر کر جاری اور تنسےخ شدہ دوائےں برآمد کی گئی ہےں۔ ملزمان کا ان جان لےوا دواﺅں کو جمع کرنے کا مقصد مرےضوں کو زےادہ پےسوں مےں فروخت کرنا ہے۔ ان درندوں کے لئے انسانی جانےں نہےں بلکہ دولت زےادہ اہم ہے۔ اےسے بہروپےوں کی لمبی قےد اور سخص قوائد قائم کرنے چاہئےں تاکہ انہےں عبرت حاصل ہوسکے۔ تنسےخ شدہ دواﺅں سے ہونے والے نقصانات جےسے جلد کی خارش اور دمع جےسے امراض انسانی زندگی مےں ہمےشہ رہ جاتے ہےں اور اکثر جان لےنے کا باعث بنتے ہےں اس کا ذمہ دار کون ؟ حکومت ؟ ےا ےہ درندے بخود ےہ اےک سوالےہ نشان رہے گا۔ انسانی جان جےسے اب سستی ترےن چےز بن چکی ہے جو ہے اسے لےنے اور کھانے کے انتظار مےں بےٹھا ہے۔ دوائےاں جنہےں ہم مرض سے نجات پانے کا سامان سجھتے ہےں وہ شاےد وہ اب کہےں کہےں جان لےنے کی وجہ بھی بن گئی ہے۔ اگر بےچنے والے احتےاط نہےں کررہے تو لےنے والوں کو عقل اور احتےاط دونوں خود کرنی چاہئے۔ نقصان خرےدنے والوں کا ہے بےچنے والوں کا نہےں ۔
  ہم حکومت سے یہ درخواست کرتے ہےں کہ ان دوا ¶ں کی فروخت کو غیر قانونی اور جرم کے طور پر لاگو کیا جائے اور اگر کوئی ادارہ یا شخص تنسیخ تاریخ دوائیں بیچنے مےں ملوث نظر آئے تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ معصوم انسانی جانوں کو ناقابل علاج امراض اور تکلیف دہ موت سے محفوظ رکھا جاسکے                   
......................................................................................

معیاری اور غیر میعاری دواﺅں میںفرق(یونٹ نمبر۵

     فارینہ اسلم 
     ایم اے پریویس
رول نمبر:۱۲
Many proof and composing mistakes
پوٹینسی :کسی بھی دوائی کی مقدار اور اس کے اثر انداز ہونے کو پوٹینسی کہتے ہیں۔
FEKC:کتنے وقت میںدوائی اثر انداز ہو رہی ہے۔
    معیاری دوائیاں پوری Potencyاور FEKCکے مطابق تیار کی جاتی ہیںےہ دوائیاں ایسا عمل وقت پر مکمل کرتی ہیں۔ معیاری دوائیوں میںجو مادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ ماہروں کی زیر نگرانی میں ےہ ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ معیاری دوائیاں حفظانِ صحت کے مطابق اور بہترین ماحول میں تیار کی جاتی ہیں دوائیوں کے تیار ہونے میں جو مشین اور فلاسز استعمال ہوتے ہیں وہ صاف ستھرے ہوتے ہیں تاکہ دوائیوں کو نمی سے محفوظ رکھا جا سکے تاکہ ان کی خصوصیت میں کوئی فرق نہ آئے۔         
ان دوائیوں کو بہت اچھی مینو فیکچرنگ میں تیار کیا جاتا ہے ان کی Source of Raw material زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو معیاری دوائیاں ہوتی ہیں ان میں دو ا فروشوں کو کم آمدنی ہوتی ہے مثال کے طور پر معیاری دوائی کی قیمت اگر100روپے ہے تو اس میں دو ا فروشوں کو بمشکل 5سے10روپے بچت ہوتی ہے جبکہ غیر معیاری دوائیوں سے دو ا فروشوں کو100میں سے50سے 60روپے کا غیر متوقع اور حیران کن منافع ہوتا ہے۔
غیر میعاری دوائیاں
     غیر معیاری دوائیوں میں معیاری دوائیوں والی خصوصیات نہیں پائی جاتی ہیں ان دوائیوں میںیا تو بہت زیادہ یا بہت کم فعال جزو استعمال کئے جاتے ہیں ےہ دوائیاں خراب آلودی اور ناقص پیکنگ کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں ۔ ہر صورت میں ےہ دوائیاں قانونی طور پر خامیوں سے بھر پور اور جان بوجھ کر بنائی جاتی ہیں ۔ غیر معیاری دوائیاںFEKCاور Potencyکے مطابق تیار نہیںکی جاتی ہیں جس کے باعث ےہ دوائیاں اپنا عمل وقت پر مکمل نہیں کر پاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کسی دوائی کے ڈبے پر دوائی کی مقدار250گرام لکھی تو اس ڈبے کے اندر200گرام مقدار موجود ہوتی ہے جبکہ غیر معیاری دوائیوں کے اندر بہترین کوالٹی موجود نہیں ہوتی ہے ۔ ےہ دوائیاں غیر مو ¿ثر اور ممکنہ طور پر ےہ مریض کےلئے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ غیر معیاری دوائیاں رجسٹر اور ضرورت کے مطابق تشکیل نہیں دی جاتی ہیں جیسا کہ متعینہ منظور شدہ فعال جزو جو اس میں استعمال کیا جارہا ہو اس کی مقدار اگر زیادہ ہو جائے تو وہ مریض کےلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔ ہے کہ اس دوائی سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
    سرکاری اسپتالوں کو جو ادوےات فراہم کی جارہی ہےں وہ غےر معےاری ثابت ہوئےں۔ رےاست کے محکمہ ڈرگ و فوڈ کنٹرول کی جانب سے مذکورہ نمونے کی جانچ سے ےہ انکشاف ہوا ہے کہ دوا کے اوپر سے مےجن اجزاءکی موجودگی کی معلومات درج کی جاتی ہےں۔ نقلی دوائےوں کی جانچ سے Maximizin -625 (Amoxicillin Trihyrate and) ان مےں سے مےں کچھ بھی موجود نہےں پاےا گےا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اےک ٹکےہ مےں 500ملی گرام کی جگہ صفر ملی گرام (Antiobiotic) نام کی انفکشن کے تدارک (Potassium Clauvnate) موجود پاےا گےا اور ےہ دوائی کسی بھی ٹےسٹ مےں کامےاب نہےں ہو پائی ہے۔ ظاہر ہے اس معاملے مےں Amoxicillin گرام کی مےڈےا مےں تفصےلات آنے سے اےک طرف عوامی حلقوں مےں سرا سےمگی پھےلی ہوئی ہے اور دوسری جانب سےاسی گلےاروں مےں ہلچل مچی ہے تاہم نقلی دوائےوں کا شکار ہونے والے مرےضوں کو انصاف ملے گا۔ اس بارے مےں کسی خوش امےدی کی ضرورت نہےں کےونکہ حکومت ہمےشہ آدم خوروں کی طرف داری کرنے مےں ےد طولی رکھتی ہے۔ آج تک کتنے اسکےنڈل طشت ازبام ہوئے مگر کےا کبھی کسی گناہ گار کو قانون سے کٹھہرے مےں کھڑا کےا گےا ۔ حےرانگی کی کوئی حد نہ رہی کہ سبھی نمونے کسوٹی پر کھرا نہےں اترے۔ لےکن سوال ےہ ہے کہ آج تک نام نہاد حےات Maximizin-625 جب بخش دوائےوں کے نام پر ڈاکٹروں، اسپتالوں مےں دوا لےنے والے عملہ اور اس کو پرکھنے والوں پر ےہ اولےن فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی جانو ں کو مد نظر رکھ کر
 دوائی سپلائی کو ہمےشہ جانچ لےا کرےں۔ وہ خود بھی انسان ہےں۔ اس لےءاس بات کا انہےں خود بھی احساس ہونا چاہئے کہ ان کی اےک ذرا سی غلطی ےا بھول چوک سے کتنے لوگوں کی جانےں جاسکتی ہےں اور ان کی صحےح پرکھ کرنے سے اصل مےڈےکل سپلائی لےنے سے کتنے مرےض شفاےاب ہوسکتے ہےں۔ انسان کی زندگی اےک تحفہ الہی بھی ہے امانت اور پراپرٹی بھی ہے۔ اگر کوئی گائے بےمار ہوجاتی ہے تو اس کا مالک گھر گھرن ہےں جاتا ہے کہ گائے بےمار ہے اس کی جان بچانے کے لئے اپنا خون عطےہ مےں دے دو۔ اس کے مقابل مےں اگر نو زائد بچہ شدےد بےمار ہو اور اس کے لئے خون کی اشد ضرورت ہو تو ٹی وی، رےڈےو اور اخبارات کے ذرائع لوگوں سے اس کے موافق خون گروپ دےنے کی از راہ انسانےت لوگوں سے اپےل کی جاتی ہے تاکہ اےک ننھی سی جان بچائی جاسکےں۔ ہمارے ڈاکٹروں پر بھی فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی عظمت ذہن مےں رکھ کر صرف با اعتبار کمپنی اور معےاری دوائےاں تجوےز کرےں۔ محض پےسوں کے لئے نہ جئےں۔ اسی طرح حکومت کا فرض اول ہے کہ نقلی دوا کے بد اندےش سوداگروں اور اس مےں ملوث افراد کے خلاف بھی قانونی کاروائی عمل مےں لا کر اور ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ےہ نہ صرف نقلی دوائےوں کی وجہ سے بلاوجہ تکلےف اٹھانے والوں کے استھ انصاف ہوگا بلکہ دوسرے لوگ بھی عبرت پکڑےں گے۔

....................................................................
آؤٹ لائین
غیرمعیاری دوائیں

ثناء شیخ:رول نمبر۵۵ ٹاپک : (جعلی دوائیں اور انکے منفی اثرات )
آؤٹ لائین
۱۔جعلی دواؤں کی خریدوفروخت ایک کاروباربن گیا ہے ۔
۲۔جعلی دواؤں کے ساتھ ساتھ ایکسپائردواؤں کی خریدوفروخت میں بھی اضافہ ۔
۳۔ڈرگ افسران کی غیرذمہ داریاں
۴۔سرکاری اسپتالوں اور ڈاکٹرزکی ملی بھگت ۔
۵۔جان لیوامختلف امراض کی بیماریوں میں بھی اضافہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماریہ شیخ:رول نمبر ۳۴ *sub topic*(ایکسپائر دواؤں کی فروخت)
آؤٹ لائین

جہاں ادویات انسانی صحت کے لئے مسیحا ثابت ہوتی ہیں وہاں ہی تاریخ و تنسیخ گز ر جانے کے بعد فروخت ہونے والی دوائیں
صحت انسانی پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ 
ا۔تنسیخ شدہ دوائیں زہریلی ہونے کے باعث مرض میں کمی کو در کنار موجودہ مرض میں اضافہ اور اسکے ساتھ کی دیگر امراض کے جسم میں آمد کے أے معاون ثابت ہوتی ہیں۔

۲۔تنسیخ شدہ دواؤں کو فروخت کرنے کا سبب یہ ہی ہوتاہے کہ پرانے اسٹاک کو دیر تک فروخت کیا جائے اور نئے اسٹاک کو زیادہ اورمہنگے داموں میں لوگوں کو فروخت کیا جائے ۔

۳۔تنسیخ شدہ دواؤں کی فروخت اکثر دکاندار اور کہیں ڈاکٹرز کی ملی بھگت سے ہوتی ہے لیکن وہ ان دواؤں کو آگے چلاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نقصانا ت کتنے خوفناک اور بھیانک ہیں اور اس سے کتنی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے ۔

۴۔یہ پرانی دوائیں کم داموں میں بیچی جاتی ہیں اور غربت سے ہماری عوام کبھی یہ ادویات خریدنے کی ہمت کر بھی لے تو اس کے انہیں بعد میں انتہائی درد ناک نتیجے دیکھنے پڑتے ہیں۔

۵۔ان ایکسپائر دواؤں کے انجذات کی وجہ سے انسانی جسم کے اندر تکلیفدہ اور درد ناک مسئلے در پیش آتے ہیں جیسے دل کے امراض ، جسم پھولنا ، الٹیاں آنا ، اور چکر آنا شامل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارینہ اسلم :رول نمبر۱۲ *subtopic*(معیاری اور غیر میعاری دواوں میں فرق) 
آؤٹ لائین

ٍ ۱ ۔ میعاری دوایں پوری فعک FEKC اور Potency کے ساتھ بنائی جاتی ہے۔
۲۔جتنی مقدار دوائی کے ڈبے پر درج ہوتی ہے اندر بھی اُتنی ہی مقدار موجود ہوتی ہے۔ مثلاََ اگر لیبل پر 250 گرام لکھا ہے اندربھی 250 گرام موجود ہوگی۔
۳۔معیاری دوائی سے مریض وقت پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔
۴۔معیاری دوائی بیماری پر درست تریقے سے کام کرتی ہے۔
۵۔غیر معاری دوائیں FEKC اور POTENCY کے مطابق تیار نیہں کی جاتی۔دوائی کے اندر بہترین کوالٹی موجود نہیں ہوتی۔ جس کے باعث وہ دوائیں اپنا عمل وقت پر مکمل نہیں کر پاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور خان۔ رول نمبر ۷۲*sub topic*(محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کی غیر ذمے داریاں):۔
آؤٹ لائین

۱) جعلی ادویات ایک سنگین اور جان لیوا مسئلہ کیسے بن گیا۔۔
۲) جعلی ادویات پر لوگوں کے عدم اعتماد کی وجہ۔۔
۳) محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے اس سنگین مسعلے کی تشہیر کرنے میں تزبذاد کا شکار کیوں ہیں۔۔
۴) محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کو کس طرح کی کارکردگی دکھا نی چا ہئیے اس مسعلے پر قابوپانے کے لئے۔۔
۵) سرکاری اور نیجی اداروں کی غیر ذمے داریوں کا ا نتہائی اثر کس طرح لوگوں پے پڑھ رہا ہے۔۔