Tuesday 29 November 2016

حیدرآباد میں غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج

This is like article, or hearsay. no quotes attribution from concerned people, otherwise its hearsay, which has no authenticity. 

 Quotations from  related people, experts etc required. 
What new thing interesting was found? no mention.
Pictures and graphs etc.  
No proper paragraphing


واثق احمد میمن
وسیم احمد
محمد نبیل 
شاہ رخ شیخ 
مُنعِم علی خان
حیدرآباد میں غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج
Conclusion
جس طرح شہریوں کو مہنگائی ،بدنظمی اور دوسری مشکلات نے پریشان کیا ہوا ہے بلکل اسی طرح چارجڈ پارکنگ کیوجہ سے بھی عوام کو ذہنی اذیت اٹھانی پڑھتی ہے جگہ جگہ شاپنگ سینٹرز ،ہسپتالوں،مارکیٹوں اور دوسری اہم عمارت کا قیام عمل میں آچکا ہے اور ہزارو ںکی تعداد میں لوگ اپنی ضرورتوں کے تحت باہر جاتے ہے اور مختلف جگہوں پر گاڑیاں پارک کرتے ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ابھی اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی نا سکے کے رقم وصول کرنے ایک دو نہیں کئی مافیا کے کارکن دوڑے بھاگے چلے آئے صاحب اس جگہ ذرا اور آ گے اس طرف موڑ لے بلکل ٹھیک ہدایت دینے کے بعد اس شخص نے رسید بک سے رسید کاٹی اور 20 سے30 روپے تک بڑی آسانی سے وصول کرلیے کچھ اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہم تو بلدیہ یاکنٹونمنٹ بورڈ کے ملازم ہے اب آپ ہوگئے لاجواب کہ اس بیچارے کی کیا غلطی؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی سر انجام نے رہا ہے لیکن وہ بھی بیچارا نہیں ہے ان کا بھی مختلف پارٹیوں سے تعلق ہے یا پھر آپس میں ہی تے کرلیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہوں پر پارکنگ نہیں وہاں ہمارے لوگ پارکنگ وصول کرینگے اور پھر طاقت کے بل پر وہ معصوم شہریوں کو بڑی آسانی سے لوٹتے ہے اور پھر اپنا اپنا حصہ تقسیم کرلیتے ہے اس تقسیم میں بلدیہ حیدرآباد سمیت ٹریفک پولیس بھی شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم مسلہ یہ ہے کہ پار کنگ کنٹریکٹر اپنے اپنے مختص کی ہوئی پارکنگ کی حدود سے اکثر تجاوز کرتے ہوئے آمدو رفت کے آنے جانے والے مین روڈز پر بھی گاڑیاں کھڑی کرواکر پیسے وصول کرتے ہے جس کی وجہ سے ٹریفک بھی جام رہتا ہے بعذ اوقات اتنی شدید ٹریفک جام ہوجاتی ہے کہ ایمبولینسس بھی پھنس کر رہ جاتی ہے ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ پولیس تو ہر بڑے کاموں میں ابتدا سے لیکر انتہا تک شامل رہتی ہے بس اسے اپنا حصہ ملنا چاہیے باقی جو جس کا دل چاہے کریں۔آج کل جدید عمارتوں میں نا کہ پارکنگ ایریا ہوتا ہے بلکہ گارڈ بھی ان جگہوں پر تعینات کیے جاتے ہے پھر پارکنگ کے حوالے سے کیوں رقم چارج کی جاتی ہے؟ یہ کھلم کھلا نا انصافی ہے اس طرح یہ لوگ ایک دن میں ہزاروں روپے کما لیتے ہے اور شہریوں کی جیبے خالی کردیتے ہے کیونکہ عید ین اور چھوٹے بڑے مواقع پر ایک ہی گھر سے کئی بار خریداری کے لیے مارکیٹ جانا پڑتا ہے تو ہر دفعہ خریدار کو گاڑی پارک کرنے کے پیسے دینے پڑتے ہے اس طرح پورے دن میں ایک ہی گھر سے 100,150 روپے آسانی سے کما لیتے ہے موٹر سائیکلوں کی پارکنگ سے آمدنی الگ حاصل ہوتی ہے اکثر اوقات ایک دو منٹ کا ہی کام ہوتا ہے لیکن پارکنگ ٹیکس ضرور ادا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 25 لاکھ آبادی پر مشتمل سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جہاں آس پاس کے مضافاتی علاقوں بدین،ماتلی،ٹھٹھہ،سجاول،ٹنڈو محمد خان ،ہالا،مٹیاری،نواب شاھ،ڈگری،میرپورخاص،ٹنڈو الھیار ، کوٹری،جامشورو،ٹنڈوآدم سے یومیہ محتاط اندازے کے مطابق 20000 چھوٹی بڑی گاڑیاں شہر میں داخل ہوتی ہے شہر میں موجود گاڑیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے لوگ عیدین،چھوٹے بڑے تہوار،دوکانوں کی خریداری کرنے، علاج کروانے ،تعلیم حاصل کرنے ،سرکاری دفاتر میں اپنا کام نپٹانے اور سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز کے اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے آتے ہے جو روز اس قسم کی منظم اور طاقتور مافیا ناجائز وصولی کا شکار ہوتے ہے جو کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے یہ سارا غیر قانونی عمل پولیس ،لوکل شہری انتظامیہ اور مقامی سیاسی با اثر لوگوں کی سرپرستی کے بغیر نا ممکن ہے پارکنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی قریبی پولیس چوکی یا اسٹیشن ،لفٹر پولیس ،ٹریفک پولیس سمیت بلدیہ حیدرآباد کی انتظامیہ کو ہفتے وار یا ماہوار ذمہ داری سے پہنچائی جاتی ہے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کے اس سارے عمل میں ملوث بے ایمان سرکاری اہلکار اور مقامی با اثر افراد کے خلاف ایکشن لےکر عوام کو ایذا پہنچانے والے عمل کو روکا جائے ۔


   حیدرآباد میں مختلف مقامات میں ناجائز پارکنگ ایریاز کی بھرمار

 واثق احمد میمن رول نمبر 70
ناجائز پارکنگ فیس وصولی حیدرآباد کے مختلف تجارتی مراکز میں عام شہریوں سے وصول کی جارہی ہے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن والے لمبی تان کے سوئے ہوئے ہے اسے انتظامیہ کی غفلت کہیں یا پارکنگ مافیا کی بد معاشی کہ شہر کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے بازاروں،ہوٹلز اور سڑکوں پر پارکنگ کے نام پر زبردستی روڈ بلاک کرکے ٹریفک معطل کیا جاتا ہے مافیا کی ہٹ دھرمی سے شہری براہ راست متاثر ہورہے ہے جی جناب موٹر سائیکل کیلئے صرف 10 روپے سرکاری فیس کہ باوجود پارکنگ مافیا شہریوںسے 20 روپے تک وصول کر رہا ہے اور یہ سارا عوام کو لوٹنے کا دھندا حکومتی آشیرباد سے جاری ہے ٹریفک پولیس ایسی موٹر سائیکلوں کو اٹھاکر ضرور لے جاتی ہے جو کم از کم کسی ٹریفک جام کا باعث نہیں بنتی مگر مجال ہے جو غیر قانونی پارکنگ ایریا سے کسی سواری کو ہاتھ تک لگائے،ٹریفک جام ہوتا ہے تو ہونے دے حضور۔۔۔پارکنگ مافیا کی ملی بھگت سے ہفتہ تو مل رہا ہے ناں۔۔۔یقینا انتظامیہ اور ٹریفک پولیس اس غیر قانونی کام میں برابر کے شریک ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پارکنگ کی اصل فیس کیا ہے اور 20 20 روپے کیوں وصول کئے جارہے ہیں شہر کی تمام ہی سڑکوں پرٹریفک کا بلاک رہنا معمول بن گےا ہے سڑک پر غیر قانونی پارکنگ بنادی گئی ہے تفصیلات کے مطابق شہر حیدرآباد کے ہیرآباد میں واقع bone care ہسپتال کے باہر حیدرآباد کے آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے آنے والے مجبور اور بے سہارا مریضوں کے احباب سے ناجائز پارکنگ فیس وصول کی جاتی ہے جہاں بعض اوقات سڑک کے دونوں اطراف گاڑی کھڑی کردی جاتی ہیں جس سے گذرنے والے انتہائی مشکلات کا شکار رہتے ہیں اس سڑک کے اردگرد 40 کے قریب پلازے بنے ہوئے ہے اور کسی نے بھی پارکنگ کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا اور ان پلازوں میں آنے جانے والے بھی گاڑیاں سڑکوں پر ہی پاک کرتے ہے اس کے علاوہ اسٹیشن روڈ حیدرآباد میں واقع ہوٹلز مالکان نے اپنی من مانی کرتے باچا خان پل کے نیچے اپنے اپنے پارکنگ ایریاز مختص کردئیے ہے شہر سے باہر آنے وا لے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کے لیے گاڑی پارک کرنا بڑا مسلئہ ہوتا ہے ہوٹلز انتظامیہ جنہیں اپنی سروسز فراہم کرتے ہوئے بیچ سڑک پل کے نیچے گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ مہیا کرتی ہے جس کے عیوض وہ اپنے کسٹمرز کی توجہ حاصل کرتی ہے میونسپل کارپوریشن حیدرآباد کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر کہا گیا اس قسم کی پارکنگ کی روک تھام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے ایسی ہی مافیاز شہر کی تقر یبا ہر شاہراہ پر بغیر کسی روک ٹوک کے کھلے عام دن کے اجالے میں شہریوں کو لوٹتے آپ کو نظر آئےگی قانون کے مطابق کینٹونمنٹ ایکٹ 1924 ہویا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001 ہو کوئی بھی پارکنگ وصول کرنے والا کنٹریکٹڑ کی ذمہ داری ہے کہ گاڑی پارک کرنے والے شخص کو سروس پرووائیڈ کریں یعنی پارکنگ کی جگہ مختص کی ہوئی ہو اورکھڑی کی گئی گاڑی کی حفاظت کریںاس ضمن میں شہر کی ایک اور اہم شاہراہ ٹھنڈی سڑک پر جہاں حیدرآباد ڈویزن کے اہم دفاتر ہے پاکستان اسٹیٹ لائف بلڈنگ، سندھ پبلک سروس کمیشن ،نیاز اسٹیڈیم سمیت شھباز بلڈنگ بھی واقع ہے جہاں سڑک کے دونوں طرف یہ مافیا آپ کو سر گرم نظر آئےنگے ان مافیاز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت مقامی سیاسی رہنماو کی مکمل سرپرستی حاصل ہے نجی ٹھیکیدار بھتے کی طرح پارکنگ فیس وصول کرتے ہے اس طرح سے ان میں بھی مختلف قسم کے گروہ ہے جن میں سے ایک چارجڈ پارکنگ مافیا ہے ان کا گٹحجور ٹریفک پولیس ،لیفٹر ،قریبی پولیس چوکی اور بلدیہ کی انتظامیہ کے ساتھ ہوتا ہے یہ مافیا پہلے کسی بھی نو پارکنگ ایریا پر گاڑیا ں پارک کرواتے ہے اور کچھ لوگوں کے لیے جنہیں روز وہاں آنا ہوتا ہے انہی کی گاڑی پارک کرتے ہے جس کے لیے انہیں روز کے 50 روپے اور باز اوقات ماہانہ 1000 روپے ملتے ہے اور اگر کوئی دوسرا شہری کسی کام سے آجائے اور کچھ دیر کے لیے گاڑی کھڑی کرنا چاہے اور وہ غیر پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے کے پیسے دینے سے انکار کردے تو یہ منظم مافیا فوری طور اپنے پیٹی بھائی ٹریفک پولیس کی کار لفٹر جو کہ ان سے رابطے میں رہتے ہے بلالیتے ہے جو شہری کی گاڑی اٹھالیتے ہے500 فائن کرتے ہیں جس سے پولیس اور مافیا کی ملی بھگت ثابت ہوتی ہیں مافیا کی حوصلا افزائی ہوتی ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ روڈ ٹیکس پیئرز ہے اور وہ اپنے ہی روڈ ز پر گاڑی نہیں چلاسکتے قانون نافذ کرنے والے اداروے اس سارے عمل کو روکنے کی بجائے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والے چارجڈ مافیا گروہ کے ساتھ شراکت داری بنا رکھی ہے مجاز اداروں کو چاہیے کہ ایسے پارکنگ مافیا سمیت اس میں ملوث پولیس اور بلدیہ انتظامیہ کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کریں اور شہریوں کی اس اذیت سے جان چھروائے۔ 
.................................................................................
   متعلقہ پارکنگ علاقہ جات میں پرمٹ کی حدود سے تجاوز 

(وسیم احمد رول نمبر68 )
پارکنگ مافیا حیدرآباد شہر کی حدود میں غیر قانونی طور پرقبضے کر رہی ہیںسندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد جہاں روز مرہ کی بنےاد پر گاڑیوں کی آمدورفت رہتی ہیںدوسرے شہروں سے آئی ہوئی گاڑیوں کی پارکنگ کی ذمہ داری میونسیپل کارپوریشن حیدرآباد اور کنٹومینٹ بورڈ کے رکھے ہوئے ٹھیکے داروں کی زمہ داری ہیںحیدرآباد میں قائم شہریوں کیلیئے واحد تفریح گاہ رانی باغ ہیں رانی باغ میں اندر داخل ہوتے کے ساتھ ہی پارکنگ مافیا کے ملازم کو کار ےا موٹرسائیکل کی پارکنگ فیس ادا کرنی پڑتی ہیں جبکہ مقرر کی گئی پارکنگ فیس کار 20 روپے موٹرسائیکل اور رکشہ 10 روپے ہیں پر پارکنگ مافیا فی کار سے 30 روپے موٹرسائیکل اور رکشہ سے 20 روپے وصول کرتی ہیں اُس کے ساتھ ساتھ شعبدہ بازی کرکے 100 روپے زائد چارچز لگائے جاتی ہیں جبکہ شہر کے باہر سے آئے ہوئی فیملیز سے مکاری سے زیادہ چارچز وصول کیے جاتے ہیں اور جب کوئی زیادہ چارچز کی بارے میں معلوم کرے تو وہاں کی پارکنگ مافیا کے تعینات غندوں کی طرف سے گاڑی مالکان کے ساتھ جوکہ فیملی کے ساتھ تفریح کیلئے آئے ہوئے ہوتے ہیں بدتمیزی اور بدسلوکی کی جاتی ہیں اور اُنھیں کہاں جاتا ہیں کہ ہمیں مالک کی طرف سے کہاگیا ہے اور ہمارے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں جب دستاویز کی طلبی کی جائے تو دکھانے سے صاف انکار کردیتے ہے جھوٹ بولکے عوام کو بے وقوف بناتے ہے اسی طرح سے حیدرآباد کینٹونمنٹ بورڈ کے پاس حیدرآباد شہر کے خاص علاقوں کے حدود کی پارکنگ ایریا مختص کیے گئے ہے اس میں سے خاص علاقے عسکری پارک،صدر مارکیٹ ،ایس آر ٹی سی موبائل مارکیٹ،چاندنی،ڈاکٹر لائین،قائداعظم پلازہ ،رکشہ اسٹینڈ قاسم چوک کی حدود متعین ہے کینٹونمنٹ بورڈ کے ٹینڈر کے مطابق کار ،ویگن اور رکشہ کے لیے 10 روپے اور موٹر سائیکل کے لیے 5 روپے رقم مقرر کی گئی تھی جس کے دو سال گذرنے کے بعد آج تک دوسرا ٹینڈر نہیں کیا گیا ہے جب کہ اب ان حدود میں لگے ہوئے بورڈز میں کار اور رکشا کی فیس 20 روپے جب کہ موٹر سائیکل کےلیے 10 روپے فیس لکھی ہوئی ہے لیکن یہاں پے پارکنگ مافیا کی جانب سے کار سے 30 سے 50 روپے وصول اور موٹر سائیکل سے 20 روپے وصول کیے جاتے ہے کینٹونمنٹ بورڈ کے تحریری ٹینڈڑ میں واضع لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ٹھیکیدار مقرر کی ہوئی فیس سے زیادہ رقم وصول کریگا تو اس کا لائسنس رد کر دیا جائےگا اور اس کا پارکنگ ٹھیکہ ختم کر دیا جائیگاپر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج تک ایسا کوئی عمل یا کاروائی کبھی کسی ٹھیکیدار کے خلاف نہیں کی گئی جب کہ پارکنگ مافیا دن بہ دن حیدرآباد شہر کے مختلف علاقوں میں اپنا قبضہ برھا رہی ہے کو شہر کے آمدورفت کے رستوں پر رکاوٹیں پیدا کر رہے ہے جس کی وجہ سے حیدرآباد کی اہم سڑکوں پر اکثر ٹریفک جام رہتا ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی میں اسپتال کی طرف جاتی ہوئی ایمبولینسس اور دوسری گاڑیاں ان غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے راستے میں پھنس جاتی ہے اور ان میں موجود مریض کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہے خاص طور سے تلک چاڑی اور صدر مارکیٹ کے روڈ پر ہمیشہ ٹریفک جام رہتی ہیں پر وہاں پر موجود ٹریفک پولیس اہلکار بھی کچھ نہیں کرتے جس کے باعث پارکنگ مافیا بہت طاقتور ہیں پر ان کے عمل کے خلاف حیدرآباد کنٹومینٹ بورڈ خود کاروائی کرے اور غیر قانونی حدود کی پارکنگ ہٹائے اُن کو کوئی خالی میدان دیا جائے جیسے کہ پارکنگ مافیا حیدرآباد شہر کی حدود کو قبضے میں لانے کیلئے شہر کے دوکانداروں کو بھی بلیک میل کر رہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ پارکنگ مافیا کے ٹھیکیدار کسی سیاسی جماعت سے وآبستہ ہیں جن کو ایسے ٹھیکے تحفے میں ملتے ہے کہ وہ عوام کو بیوقوف بنا کر زیادہ پیسہ کمائے۔
.................................................................................
 حیدرآباد میں ہسپتالوں ہوٹلوں اور مارکیٹوں کے باہر غیر قانونی پارکنگ 

محمد نبیل

پارکنگ مافیا نے ایک بار پھراپنے پنجے حےدرآباد کے مختلف علاقوں میں گاڑ لیے ،اور اپنے خون خوار پنجوں کے ذریع حیدرآباد کے معصوم اورلاچارشہریوں کو زخمی کر رہے ہیں،حیدرآباد جو صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے،انتظامیہ کی غفلت کے باعث پارکنگ مافیا ،جو شہریوں کو لوٹ رہے ہیں ،اسی کی تحقیقات کے لیے ہم نے شہر حےدرآباد کے مختلف شہراہوں کا رخ کیا،اور پارکنگ مافیا کے کالے قرتوتوں پرسے پردا اٹھانے کی تھانی،اور ایک جامع تحقیقات کا منصوبہ تشکیل دیا،اور اسکو اپنے مختلف ٹیم میمبرز میں تقسیم دیا،جس میںمیں نے لطیف آباد کے علاقے کا نتخاب کیا،تحقیق میںہم نے لطیف آباد کے مصروف ترین علاقوں کا رخ کیا،جس میں تحقیق کے لیے ہسپتال اور بازار شامل کیے گئے،جن میں لطیف آباد کی مشہورمارکٹ ،چراغ موبائل کمپلس ،شاہین آرکڈ،جامع کلاتھ مارکیٹ،حلال احمر اور بھٹائی شامل کیے گئے،جہاں ہم نے اپنے نمائندہ کو ایک عام شہر کے بھیس میں بھیجا،تو معلوم ہو کے بھائی صاحب کو پارکنگ کے پیسے دینے پڑیںگے،ان سے سوال پوچھا گیا،یہا ں تو پارکنگ تھی ہی نہیں ،تو مختلف پارکنگ مافیا کے نمائیندوں نے اسکا جواب مختلف انداز میں دیا،لیکن سب کا ایک ہی مقصد تھا،تحقیقی کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے انکو بتایا گیاکہ پارکنگ غیر قانونی ہے،یہ بلدیہ عظمہ سے رجسٹرد نہیں ہے،جس پر نمائندوں نے کہا کے یہ پارکنگ رجسٹرد ہے،جب ان سے رجسٹرد کا ثبوت مانگا گیا تونمائندوں نے اس کی جعلی پرچی دکھائی،لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ آپ کی پرچی دوسری پارکنگ کی پرچی سے مختلف ہے،جو کے جعلی ہے،اور بتایا گیا کے اگر اپکی پارکنگ بلدیہ عظمہ سے رجسٹرد ہو تی تو دونوںپرچی ایک جیسی ہونی چاہیں تھی،جو کے سرکاری پریس سے پرنٹ کی جاتی ہونگی۔ اسکے بعد پند نمائندوں نے اسکا اعتراف کیاکہ مختلف جگہوں پر مختلف لوگ سرکاری نمائندوں کی ملی بھگت سے پارکنگ کا ٹھیکا لیتے ہیں،اور اپنے نمائندوں ملازمت دیتے ہیں،تحقیق کے دوران مختلف پارکنگ کے نمائندوں سے معلوم کیا گیاکہ یومیہ کتنے پیسے ملتے ہیں،کسی نے کہا پانچ سو،سات سوتو کسی نے کہا کے آٹھ سو روپے،جس میں ٹھیکے دار کی طرف سے کھانا اور چائے کے پیسے بھی علےدہ سے دیے جا تے ہیں،تو کسی نے کہا کہ ٹھیکیدار سرکاری نمائندوں سے مل کر پارکنگ کا ٹھیکا لیتے اور پھر دوسروں کو ٹھیکے پر دے دیا کرتے ہیں،تو کسی نے بتا یا کے سیزن میں ٹھیکے کے دام بڑھ جاتے ہیں اور پارکنگ کو وسیع کر دیا جاتا ہے،خاص کر کے مذہبی تہواروں پر ،جس میں عید ،بقراعیداور رمضان کا مہینہ شامل ہے،تحقیق کے دوران عام عوام کی رائے لی گئی،توان کا کہنا تھا کے انکو پارکنگ کے پیسے نا دیے جائیںتو عوام کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کبھی انکی گاڑی پنکچر کردی جاتی ہے تو کبھی ٹائر سے ہوا نکال دی جاتی ہے تو کبھی یہ بدزبانی پر اترآتے ہیں،اور فیملی کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں،حےدرآباد کا ریٹ کچھ یوں ہے،موٹر سائیکل دس روپےکار بیس روپےکچھ لوگ اپنے دس بیس روپے بچانے کے لیے موٹر سائیکل اور کار کو غلط پارک کر دیتے ہیں،جس کے باعث ٹریفک جام اور حادثات کا منہ دیکھنا پڑھتا ہے،اگر حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے پورا کریںاور شہر مےں کراچی ترز کا پارکنگ پلازہ جےسے اقدامات کر دیے جاے تو ناصرف بلدیہ عضمہ کو اس سے فائدہ ہوگابلکے شہر مےں ٹرےفک کے نیظام پر بھی قابو پانے مےں آسانی ہو گی نا صرف یہ بلکے شہر میں پارکنگ مافےہ سے بھی چھٹکارہ حاصل ہوگا ، اور غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات سے بچا جا سکتا ہے بلکہ شہریوں کا نقصان جو انکو ناجائز پارکنگ نہ دینے پر اداکرنا پڑھتے ہیںان سے بھی بچا جا سکتاہے،

.................................................................................

شہر حیدرآباد میں بلڈرز حضرات کا نئے تعمیر شدہ عمارتوں کے نقشوں میں پارکنگ ایریا ظاہر کرنے کے باوجود پارکنگ ایریا نا بنانا
(شاہ رخ شیخ رول نمبر 71 )

شہر حیدرآباد جسکی آبادی تقریباً 25 لاکھ ہے جہا ں روز بہ روز نئی نئی عمارتیں بڑی تیزی اور تسلسل سے تعمیر کی جا رہی ہیںجسکی وجہ سے شہر حیدرآباد کو ٹریفک جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہیں جسکی سب سے بڑی وجہ عمارتوں،مارکیٹوںاور ہوٹلزکیلئے پارکنگ ایریا کا مختص نا ہونا ہیں جبکہ جائز پارکنگ نا ہونے کے باوجود لوگ غیر قانونی پارکنگ زون میں اپنی گاڑیاں پارک کردیتے ہے جس سے ٹریفک کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہیں حالانکہ بلڈرز حضرات اپنی بنائی ہوئی عمارتوں کے نقشوں میں پارکنگ ایریا تو ظاہر کردیتے ہیں مگربجائے اُسے تعمیر کرنے کے وہ اُسے صرف نقشوں تک ہی محدود کردیتے ہیں جسکی وجہ سے اُن عمارتوں کے رہائشی اپنی گاڑیاں باہر روڈ پر ہی کھڑی کردیتے ہیں جس سے اُنھیں اپنے مالی نقصان کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہیںجبکہ سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کے نقطہ نظر سے بلڈرز حضرات کو اپنی بنائی ہوئی عمارتوں کے ساتھ بڑی اور کھلی جگہ کے علاوہ مناسب کار پارکنگ ایریا ڈیزائن کرنے کا بھی حکم ہیںمگر بجائے وہ ایسا کرنے وہ مزید بقیہ جگہوں کو بھی کمرشلائز کردیتے ہیں اس کے علاوہ ہوٹلز مالکان بھی اسی سمت میں چلتے ہوئے بجائے اپنی مخصوص پارکنگ ایریا بنائے اپنی من مانی کرتے ہوئے باچا خان پل کے نیچے اپنے اپنے نا جائزپارکنگ ایریاز مختص کردئیے ہے جبکہ شہر سے باہر آنے وا لے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیز ملازمین کے لیے گاڑی پارک کرنا بڑا مسلئہ ہوتا ہے ہوٹلز انتظامیہ جنہیں اپنی سروسز فراہم کرتے ہوئے بیچ سڑک پل کے نیچے گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ مہیا کرتی ہے اس کے عیوض وہ اپنے کسٹمرز کی توجہ حاصل کرتی ہے مزید تحقیق کرنے سے یہ پتہ چلا کہ شہر حیدرآباد میں جن بڑی عمارتوں میں پارکنگ کے مسائل ہیں اُن میں قائداعظم اسکوائر،طیب کمپلیکس،ایس آر ٹی سی مارکیٹ،کوہ نور پلازہ و دیگر کئی عمارات شامل ہیں اسکے علاوہ سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کے تحت رہائشی و کمرشل جگہ کا 1200Sq.ft حصہ مختص ہیں جبکہ بقیہ حصہ پارکنگ کے لیے مختص کیا گیا ہے تا کہ اسے متعلقہ قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا جائے جبکہ اسکے طول و عرض کے پلاٹ پر تمام عمارتوں جہاں کار پارکنگ کے ڈیزائن کی کوئی جسمانی جگہ ہو ایسی صورت میں PCATP اور C.O.Bنمائندے پارکنگ ایریا کے مختص ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرینگے جبکہ اُن کا کیا ہوا ہر فیصلہ حتمی ہوگاجبکہ دوسری جانب مختلف بینکوں کی عمارت کا بھی بُرا حال ہیں جہاں گاڑیاں پارک کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے جسکی وجہ سے بینکوں میں آئے ہوئے لوگ اور بینک ک دیگر افراد اپنی گاڑیاں مین روڈ پر ہی پارک کردیتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی میں بھی خلل پڑتا ہیںسندھ گورنمنٹ اور سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول کو چاہےیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے پورا کریںاوران لوگوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیںاور شہر مےں کراچی ترز کا پارکنگ پلازہ جےسے اقدامات کر ے تو ناصرف بلدیہ اعلیٰ کو اس سے فائدہ ہوگابلکے شہر مےں ٹرےفک کے نظام پر بھی قابو پانے مےں آسانی ہو گی نا صرف یہ بلکے شہر میں پارکنگ مافےہ سے بھی چھٹکارہ حاصل ہوگا ، اور غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات سے بچا جا سکے گااور شہریوں کا نقصان جو انکو ناجائز پارکنگ نہ دینے پر اداکرنا پڑھتے ہیںان سے بھی بچا جا سکے گا۔

.................................................................................
پارکنگ مافیا کو بااثر افراد کی سرپرستی
            نام ۔        مُنعِم علی خان
            رول نمبر ۔    43ایم اے پریویس
            سمسٹر ۔    دوسرا
            ڈپارٹمنٹ ۔    ماس کمیونکیشن
انسان کی زندگی میں اصول و ضوابط بہت ضروری ہیں یہ وہ اہم عناصرہیں جن کی بنیاد پر انسان کی ترقی کادارومدارہے ، ان کے بغیر آگے بڑھنے کا تصور محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں ایک قانونی نظام ہے جس پر عمل کرنا اور کروانا ریاست کی ایک اہم ذمہ داری ہے مگر ایسا معلوم ہوتاہے کہ مملکت خداد پاکستان میں روز اول سے قانون کانفاذ صحیح طرح سے نہ ہو سکا اورشایدیہی ہے بہت سے اہم وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے کہ جس کے باعث ہم دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہیں ۔ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی طرح حیدرآبادمیں ٹریفک جام اورغیر قانونی پارکنگ ایریاز دن بہ دن سنگین مسئلے بنتے جا رہے ہیں ۔ایساہونے پر حیرانگی نہیں ہونی چاہےے جبکہ تقریباً پورے شہر میں ایک ہی واحد ٹریفک سگنل ہے جو کہ صدر کے چوک پر واقع ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بھی مکمل طور پر کام نہیں کر رہا ہے ۔ جہاں تک غیر قانونی پارکنگ کی بات آتی ہے تو اس میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بھی نا اہلی شامل ہے ۔ متعلقہ ادارے جن میں بلدیہ حیدرآباد ، ایچ ڈے اے اور ٹریفک پولیس شامل ہے ، اپنی ذمہ داری صحیح طرح سے ادا نہیں کر رہے ہیں جس کی بنا پر تقریباً پورے شہر میں آپ غیر قانونی پارکنگ ایریا ز کو دیکھ سکتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ٹھیکیداروں سے استفسار کرتا ہے تو وہ اپنے علاقے کو قانونی پارکنگ ایریا بتا کر بات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بغیر متعلقہ اداروں کی اس میں ناجائز شمولیت اور ناجائز سیاسی سرپرستی کے بغیر ہی ایسے ایریاز کو پارکنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہو ۔ ہماری دیگر ممبران کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے پارکنگ مافیا کو بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے ۔ہمارے تحقیقی علاقاجاتلطیف آباد، چاندی اور حیدرآباد کے دیگر کاروباری علاقاجات شامل ہیں۔ ارباب اختیار پر اب یہ ذمہ
 داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو اس ناجائز سہولت اور پارکنگ مافیا سے نجات دلائیں اور پورے شہرحیدرآباد کیلئے منظم ٹریفک اور پارکنگ کا نظام متعارف کرواکر اس پر عمل در آمد کروائے ورنہ شہریوں کا قیمتی وقت بھی
 ضایع ہوتا رہے گا اور روز مرہ کے حادثات میں تیزی آتی رہے گی ۔

3849 words

 ----------------------------------------- 
Outline
حیدرآباد میں جائزپارکنگ کا فقدان اور غیر قانونی پارکنگ مافیا کا راج 
.1متعلقہ پارکنگ علاقہ جات میں پرمنٹ کی حدودسے تجاوز:۔ 
۔پارکنگ ایریاز میں نا جائز پارکنگ فیس وصول کرنا
۔پارکنگ ایریاز کی مقررہ حدود کے بارے میں معلوم کرنا
۔پارکنگ ایریاز میں زبردستی غنڈہ گردی کر کے پارکنگ فیس وصول کرنا
(Waseem Ahmed M.A Previous Roll no 68)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.2مناسب پارکنگ انتظامات نہ ہونے پر شہریوں کو در پیش مشکلات اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی:۔
حیدرآباد جو صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر بھی کہلایا جاتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شہری آبادی تقریباََ25 لاکھ ہونے کے علاوہ اس میں ٹرانسپورٹ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے باعث حیدرآباد میں پارکنگ ایریاز کا فقدان ہیں۔
(Muhammad Nabeel M.A Previous Roll no 40)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.3حیدرآباد میں مختلف مقامات میں ناجائز پارکنگ ایریاز کی بھرمار:۔
۔سندھ کا دوسرابڑا شہر 25 لاکھ آبادی پر مشتمل حیدرآباد جہاں ناجائز / غیرقانونی پارکنگ میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے انتظامیہ حکام کی خاموشی کیوجہ سے لوگوں کیلئے منافعہ بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
۔نا جائز پارکنگ مافیاز میں نجی ہوٹلز کی پارکنگ،مارکیٹس کی پارکنگ ،اسپتال کی پارکنگ شامل ہے۔
۔کتنے نجی ہوٹلز میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
۔کتنے اسپتال میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
۔کتنی مارکیٹس میں ناجائز پارکنگ لی جاتی ہے۔
(Wasique Ahmed M.A Previous Roll no 70) 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.4کمرشل بلڈرز کا تعمیری نقشوں میں پارکنگ ایریاز ظاہر کرنے کے باوجود پارکنگ نہ بنانا:۔
شہر حیدرآباد میں سندھ بلڈنگ اینڈ کنٹرول اٹھارٹی اور حیدرآباد ڈویلپمینٹ اٹھارٹی کے تحت بلڈرز حضرات اس بات کے پابند ہے جس کے تحت وہ اپنے بنائے ہوئے تعمیری پروجیکٹ اور رہائشی و کمرشل جگہاؤں پر پارکنگ ایریاز کی تعمیر کرائے۔
۔حیدرآباد میں پلاٹ ،بلڈنگ اور پلازہ کی تعداد کتنی ہے جہاں پارکنگ کا نظام ہو۔
ان بلڈرز حضرات کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔
(Shahrukh Shaikh M.A Previous Roll no 71) 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.5پارکنگ مافیا کوبااثر افراد کی سرپرستی:۔
مختلف مقامی سیاسی جماعتوں کی نا جائز سرپرستی۔
بلدیہ اعلیٰ کی اس پر مجرمانہ خاموشی۔
غیر قانونی ٹھیکہ داروں کی اس میں شمولیت۔
(Munim Ali M.A Previous Roll no 43)

No comments:

Post a Comment