Tuesday, 29 November 2016

غیر معیاری ادویات

This is like article, or hearsay. no quotes attribution from concerned people, otherwise its hearsay, which has no authenticity. 

 Quotations from  related people, experts etc required. 
What new thing interesting was found? no mention.
Pictures and graphs etc.  
This is report, 5Ws and 1H applies on it. that is also missing
No proper paragraphing 
 Figures facts needed
Fareena: Many proof and composing mistakes
انویسٹگیشن رپورٹ
ایم۔اے۔ پریویس  گروپ
گروپ ممبرز:  حور خان، ثناءشیخ، ماریہ شیخ، فارینہ اسلم، فاریہ منصور۔

انویسٹگیشن مین ٹاپک:  غیر معیاری ادویات


تعارف
اگرکوئی انسان انسانیت اور احساس کے مقام سے گرجائے توپھر وہ حیوان سے بدترہوجاتا ہے۔ایک شیردوسرے شیر جبکہ ایک کتادوسرے کتے کا گوشت نہیں کھاتا مگر عہدوحاضر کے انسان ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔عہدو جہالت میں لوگ صرف اپنی بیٹیوں کو زندہ درگورکیاکرتے تھے مگرآج طاقتورمافیا کمزورانسانوں کو زندہ زمین میں گاڑرہے ہیں ادویات اورصحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کے بجائے زندگی چھین رہے ہیں ہماراملک دنیا کے ان چند ممالک میں شمارکیا جاتا ہے جن میں صحت کا بجٹ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ہمیں ہر سال زیادہ اسپتالوں زیادہ ڈاکٹروں اور زیادہ نرسوں کی ضرورت پڑتی ہے ملک میں ادویات کا کاروبار تیزی سے ترقی کررہا ہے ۔پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایساکیوں کہ ہمیں ہر سال زیادہ اسپتالوں اور ڈاکٹرکی ضرورت پڑتی ہے ۔اس کی بڑی وجہ دن بدن پھیلنے والے امراض میں اضافہ ہے ۔پاکستان میں ٹی بی بھی دوبارہ سراٹھارہی ہے ہم پولیومیں بھی خطرناک ملک بن چکے ہیں ۔ہمارے بچے سانس کی بیماریوں کے شکاربھی ہیں۔ہم امراض قلب میں بھی سرخ لائین کے اوپر ہیں۔ملک میں ایڈزبھی تیزی سے پھیل رہا ہے اورہم شوگرمیں بھی دنیامیں چوتھے نمبر پر ہیں چناچہ ہم من حیث القوم بیمارہیں جہاں مختلف امراض میں اضافہ ہورہا ہے وہیں ادویات کی عدم دستیابی ان امراض کو ختم کرنے میں اہم کرداراداکرتی ہیں پھر جب معیاری ادویات کا شمارغےرمعیاری ادوایات میں ہونے لگے تووہ دوائیں مرض کو ختم نہیں بلکہ انسان کو موت کے گھاٹھ اتاردیتی ہیں پاکستان کا شمار دنیاکے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خطرناک حد تک معیاری ادویات کی عدم دستیابی اور جعلی و نقلی ادویات کی تیاری کاروبار ایک طاقتورمافیا کی شکل اختیارکرگیا ہے ۔آج کی تاریخ میں نقلی و غیر معیاری ادویات کا چلن عام ہے غیرمعیاری ادویات کی خریدوفروخت میں شدت سے اضافہ ہونے کے باعث یہ اب لوگوں کی جان لینے پر مبنی ہوتا جارہا ہے ۔صحت کا شعبہ کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔وہیں حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں جعلی ادویات سے وابستہ عناصربے خوف پیسہ بنا رہے ہیں ۔جس میں ڈاکٹرزبذاتِ خود جوکہ مریضوں کے رہنمامانے جاتے ہیں ساتھ ہی اس کام میں ملوث مافیاکوہمت اور دلیری دینے والے ہمارے متعلقہ ادارے ہیں ہیں محکمہ صحت اورمتعلقہ ادارے اس مسئلے کی تشبیر سے دستبردارہوئے بیٹے ہیں ۔جوکہ رشوت اور منتھلیاں لیکر خاموش ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ تنسیخ شدہ دوائیں اور ان کی فروخت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کے ذمہ دار نہ صرف دوکانداربلکہ مریض بھی ہوتا ہے جوبغیر تاریخ تنسیخ دیکھے دوائیں خریدلیتے ہیں۔اگر مجموعی طورپردیکھا جائے تومیڈیکل ایسوسی ایشن کا کام معاشرے میں ہونے والی بے ایمانی اور غیرمعیاری ادویات کی روک تھام ہے مگرافسوس کی بات ہے کہ میڈیکل ایسوسی ایشن جیسے ادارے بھی اپنے فرائض صحیح طریقے سے سرانجام نہیں دے رہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ محکمہ صحت اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں معیاری اور غیرمعیاری دواﺅں میں فرق سمجھنے کا شعور پیداکریں۔
مجموعہ
دوکانوں پر جعلی ادوایات جبکہ گلی محلوں میں عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار حکومت اور متعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ پر اورکارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔جہاں حکومت کی بنیادی آئینی ذمہ دری ہے کہ وہ عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرے وہیں غیر معیاری ادویات اور جعلی و نقلی ادویات کی خریدوفروخت میں اضافہ اس بات کی تشریح بھی کرتاہے کہ یہ بھی محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے کی غیر ذمہ داری ہی ہے جو آج ڈرگ مافیا سرِ عام معصوم عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں دوائیوں کے نام پر زہربیچاجارہا ہے ۔اس کے علاوہ زاہدالمیعاد کاکاروبار بھی زورپکڑ گیا ہے۔یہ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھے۔جعلی ادویات بنانے اوربیچنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے،حکومت سے التماس ہے کہ جعلی ادویات کی فروخت کی روک تھام کے لئے مو ¿ثراقدامات کرے اور اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیں ساتھ ہی حکومت کو چاہئے کہ محکمہ صحت اورمتعلقہ اداروں کو کرپٹ لوگوں سے پاک صاف کریں اورایسے ذمہ داربندوں کو عوام کا محافظ بنائے جو اپنی ذمہ داریاں اورفرائض صحیح طریقے سے سرانجام دیں ساتھ ہی لوگوں میں معیاری اورغیرمعیاری دوائیوں میں فرق سمجھنے کا شعورپیداکریں تاکہ مریض دوائیں خریدنے سے پہلے پوری جانچ پڑتال کرلیں ۔اسی طرح اگرہم ترقی یافتہ قوم بنناچاہتے ہیں توپھر ہمیں لوگوں کی صحت پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ دنیاکی کوئی بیمار قوم ترقی یافتہ نہیں ہوسکتی۔

......................................................................................

   جعلی ادویات اور ان کے منفی اثرات (یونٹ نمبر:۱)

 ثناءشیخ
رول نمبر:۵۵
کلاس     ایم اے (پریویس)

   نیا زخم پرانے زخم کے درد کو بھلا دیتا ہے یہ ایک عربی شاعر کے دیوان سے اخذ کیا ہوا مصرعہ ہے جو آج کے موضوع کے حوالے سے یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے پاکستان کا شمار دنےا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خطرناک حد تک معےاری ادوےات کی عدم دستیابی اور جعلی و نقلی ادویات کی تیاری کا کاروبار ایک طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے آج کی تاریخ میں نقلی و غیر معیاری ادویات کا چلن عام ہے دوائی بیچنے والے زہر بیچتے ہے ادویات اور صحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کے بجائے زندگی چھین رہے ہے حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں جعلی اور غیر معیاری ادویات سے وابستہ عناصر خوب پیسہ بنارہے ہیں اور اس گورکھ دھندے کی لگام کسنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا جارہا ۔پاکستان میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ایک منافع بخش تجارت بن گئی ہے جعلی اور جان لیوا ادویات پورے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے پاکستانی عوام اپنے بجٹ کا 77 فیصد حصہ ادویات خریدنے پر صرف کرتی ہے WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 30 سے 40 فیصد میڈیکل اسٹورز نقلی ادویات ہوتی ہیں WHO کے مطابق پاکستان میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں 13 وے نمبر پر ہے جہاں نقلی اور غیر معیاری ادویات تیار کی جاتی ہے ان جعلی ادویات کے استعمال سے ہمارے ملک میں مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلتی جارہی ہے اور ان جعلی ادویات کی بڑی مقدار کراچی،ملتان،لاہور اور راولپنڈی میں تیار کی جاتی ہے۔
   صوبہ سندھ میں کراچی کے بعد سب سے بڑی ڈرگ ہولسیل مارکیٹ حیدرآباد میں واقع ہے جو کہ تقریبا 150 بڑی دکانوں پر مشتمل ہے جہاں غیر معیاری اور غیر معروف دوائی کمپنیوں کی رسائی مارکیٹ تک بلا روک ٹوک جاری ہے اس سارے غیر قانونی عمل کی روک تھام کے لیے پاکستان ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے ایک محکمہ قائم ہے جس کا کام مارکیٹ سے دوائیوں کے نمونے اٹھانے ،انہیں متعلقہ لیبارٹیوں کو بھیجنے اور اگر کسی دوائی کے بارے میں منفی رپورٹ آجائے تو اس دوائی کو بنانے اور مارکیٹ میں لانے والی کمپنی کے خلاف ایکشن لینا ہے لیکن زمینی سطح پر اس محکمے کا کام صرف لائسنس کی اجرائی ہی رہ گیا ہے۔حیدرآباد ڈویزن جو کہ 6 اضلاع پر مشتمل ہے اور ہر ڈسٹرکٹ میں ایک ڈرگ انسپیکٹر تعینات کیا جاتا ہے جس کا کام ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے یہ جعل ساز مافیا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جعلی دوائیں بنانے کا کام کر رہے ہے مگر افسوس کی بات ہے محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ ادارے رشوت اور منتھلیاں لیکر خاموش ہوجاتے ہے اور اس کا خمیازہ غریب مجبور عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
    حیدرآباد کے میڈیکل اسٹورز پر مضر صحت ،غیر معیاری اور ناقص ادویات سر عام فروخت ہو رہی ہے جن کے استعمال سے سالانہ ہزارو افراد موت کے منہ میں جارہے ہے ۔اس وقت مارکیٹ میں نشہ آور ادویات،جعلی ادویات بلخصوص کف سیرپ ،گولیاں اور مختلف ناموں کی نشہ آور ادویات کی بھرمار ہے جس کو نوجوان ہی نہیں عمر رسیدہ افراد بھی استعمال کررہے ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ زائدالمیعاد ادویات کی خرید و فروخت میں بھی اضافہ ہو تا جارہا ہے جس کے نہ صرف دکاندار ذمہ دار ہے بلکہ عوام بھی برابر کی شریک ہے جو بنا دیکھے ادویات خرید کرتی ہے اور ان مافیاز کی حاصلہ افزائی کرتی ہیںاس کے علاوہ ہولسیلر زیادہ چلنے والی دواﺅں کو اسٹو ر کرلیتے ہے اور بعد میں ادئیوں کو مہنگے داموں بیچتے ہے۔
    پاکستان میں جعلی اور زائدالمعیاد ادویات کا کاروبار زور پکڑ گیا ہے سرکاری ادویات کو زہر بناکر بیچہ جارہا ہے دوا نہ ملنے سے بھی موت اور دوا ملنے سے بھی موت غریبوں کے نام ملنے والی کروڑوں روپے کی ادویات مسحقین تک پہنچنے سے پہلے ہی تبدیل کرلی جاتی ہے سرکاری دوائیوں کا لیبل تبدیل کرکے بازاروں میں بیچا جا رہا ہےاور اس کاروبار کا پورا کا پورا منظم نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے سرکاری ہسپتالوں کی بات کی جائے تو وہاں بھی انسانی زندگیوں کے ساتھ گھناونا تھیل جاری ہے مریض جہاں ڈاکٹر کو اپنا محافظ سمجھتے ہے وہی ڈاکٹر ز ان مریضوں کے لیے ایک قاتل کا کردار ادا کر رہے ہے ۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جو ادویات مریضوں کو مہیا کی جاتی ہے وہ 75 فیصد جعلی ہوتی ہے اس کام میں صرف ڈاکٹرز نہیں بلکہ پوری کی پوری انتظامیہ ملوث ہے دکانوں پر جعلی ادویات جبکہ گلی محلوں میںعطائی ڈاکڑز کی بھرمار حکومت اوراور متعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ پر ور کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی اور آئینی ذمہ داری ہے یہ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادویات ساز کمپنیوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھے جعلی ادویات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے اور اس کاروبار سے وابستہ درندوں کےخلاف فوری اور سخت ایکشن لے جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے باز نہیں آتے۔

......................................................................................

 محکمہء صحت اور متعلقہ اداروں کی غیر ذمے داریاں  یونٹ نمبر۲

 حور خان
رول نمبر:۴۳
     ایم اے  پریویس

غیر معیاری ادویات کی خریدوفروخت میں شدت سے اضافہ ہونے کے باعث یہ عمل اب لوگوں کی جان لینے پر مبنی ہوتا جا رہا ہے یہ ایک ایسا سنگین مسلہ بنتا جا رہا ہے کہ جس میں ڈاکٹرزبذات خود جو کہ مریضوں کے رہنما مانے جاتے ہیں اور ساتھ ہی میں محکمہءصحت اپنی گمراہی اور لاپر واہی کی حدوں کو پار کرتے نظر آ رہے ہیں جعلی ادویات بنانے والے کرپٹ اداروں کو اتنی ہمت اور دلیری دینے والے بھی خود غرضی کا شکار ہیں مختلف کلینکس اور میڈیکل اسٹورز جہاں اس طرح کے کام زوروشور سے چلتے آرہے ہیں اور کئی جان لیوا واقعات بھی پیش آئے مگر وقتی سزائیں دے کر ان گورک دھندا کرنے والوں کو پھر سے آذاد چھوڑ دیا جاتا ہے انسانی جانیں کیا اتنی سستی ہو گئی ہیں۔حیدرآباد یونٹ نمبر۱۰ میں واقع یثرب کلینک میں اپنا فرض بخوبی انجام دینے والے ڈاکٹر شعیب احمد کے طفیل یہ کچھ باتیں سامنے آئیں جعلی ادویات کی بدولت جان گوا دینے والے لوگوں میں ذیادتی گاوں کھیڑوں میں بسنے والے لوگوںکی ہوتی ہے کیونکہ ان کی معصومیت اور بے عقلی انہیں لے ڈوبتی ہے۔
جولی ادویات بنانے والے اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ اصل اور نقل کا فرق سرے سے ختم ہی ہو گیا ہے اور ان جعلی ڈرگز میکرز کو کس نے ماہر کیا۔یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ فارمسٹ اور میڈیکل ریپک کے لوگوں کا بھی بڑا کردار سامنے آیا ہے ادویات بنانے کی مہارت ایک فارمسٹ سے زیادہ کسی کو حا صل نہیں یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا کہ کس قسم کی ادویات بنانے میں کس قسم کا فارمولا استعمال کیا جا تا ہے اور اگر کسی سنگین بیماری کی ادویات جو کہ مریض کی خرید میں نہ ہو تو اسکی نعمل بدل کی تجویز کا کام بھی ایک فارمسٹ ہی کر سکتا ہے تو اس کے لئے کیا مشکل کہ وہ ایک آریجنل دوا میں استعمال ہونے والے فارمولاز کی ہیرا پھیری کر کے اس فارمولے کا نعمل بدل بنا کے جعلی دوا کا انتخاب کر لے کوئی بھی دوا محکمہ صحت اور سرکاری اداروں سے اپرومنٹ اسٹیمپ کے بغیر بازاروں میں بکنے کے لئے نہیں جا سکتی مگر بلیک میں ان دواوئںکو اسٹورز تک پہنچا دیا جاتا ہے محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے اس مسلے کی تشہیر سے دستبردار ہوئے بیٹھے ہیں کیونکہ یہ ادارے تزبذد کا شکار ہیں یہ ادارے خود لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں کیونکہ بہت سے سرکاری ادارے خود بھی اس کرپشن میں شامل ہیںتگڑا معاوضہ دے کر ان اداروں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے گرم جیبوں کی تپش نے ان ادارے کے لوگوں کے ظمیر سیاہ کر دئے ہیں کم پیسوں میں نقلی دوائیں بنوا کر باقاعدہ اپرووڈ کروا کے بچا ہوا سرمایہ اپنے جیب کی زینت بنائی جا رہی ہے کوٹری بلاڑی کے ایک گورنمنٹ ہسپتال میں حال ہی میں چند ڈرگز انسپیکٹر کا چھا پا پڑا جہاں ہیپا ٹائٹس کی دوائیں با قاعدہ پیسوں میں بیچی جا رہی تھی جبکہ ہیپا ٹایٹس کی دوائیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں ضرورت مند مریضوں کو حیدرآباد لطیف آباد میں واقع شہباز بلڈنگ جہاںڈائریکٹر آف میڈیکل اسوسئیشن کا آفس ہے وہاں ڈرگز انسپیکٹرز بوقت موجود رہتے ہیں ان سے مل کے بات کرکے یہ ساری معلومات سے آراستہ ہوئی چند ادارے اب بھی ہیں جو اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں مگر ہر علاقے ہر ٹاون کے متعلقہ اداروں کو سبق دوشی سے کام لینا ہو گا جہاں زرا سا بھی شک پیدا ہو فوراًاس جگہ کا دورہ کیا جائے ورنہ ان غیر معیاری ادویات کا کاروبار عروج پے رہے گا کیونکہ سرکاری اور نیجی ادارے بلکل غیر زمے داری کے مظاہرے پے ا ±ترے ہوئے ہیںان کی غیر ذمے داریوں کا لو گوں اور ان کی زندگیوں پر کس قدر اثر پڑ رہا ہے بیماریاں زندگی کا حصہ ہیں اور ڈاکٹرز مریضوں کے رہنما محکمہ صحت انسانی صحت کی حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن اگر یہی لوگ انسانی صحت اور انسانی جانوں کے ساتھ تجربے کریںگے تو کون ہو گا مریضوں کا حامی و ناصر کون بھرے گا ان غیر ذمے داریوں کا اضالہ۔

......................................................................................
میڈیکل ایسوسی ایشن کی ذمہ داریاں (یونٹ نمبر۳)
500 + words
نام:فاریہ مسرور
رول نمبر:۳۲
کلاس :ایم اے (پریویس)

پاکستان میں میڈیکل ایسوی ایشن کے فرائض کی انجامی ہم سب کی زندگیوں کی ضمانت ہے اور یہی ایک روشن مستقبل اور صحت مند پاکستان کی علامت ہے لیکن حیدرآباد میڈیکل ایسوسی ایشن کی ذمہ داریاں کچھ اپنی مثال آپ ہیں۔ کیونکہ حیدرآباد میڈیکل ایسوسی ایشن میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو کہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا باعث ہیں سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں ناقص اور مضر صحت ادویات استعمال کرکے اپنے زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اس بات کو بھنک تک نہیں کہ حیدرآباد شہر، شہر موت بنتا جارہا ہے سندھ کا دوسرا سب سے بڑا شہر حیدرآباد لاپرواہی کی بھیٹ چڑھ گیا ہے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی پہ بدقسمتی ہے کہ جعلی دوائیاں فروخت کرنے والوں کی سزا 1976کے ڈرگ ایکٹ کے تحت صرف 7سال ہے لیکن آج تک کسی بھی ملزم کو اس سزا کا مرتکب نہیں پایا گیا۔
    اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میڈیکل ایسوسی ایشن کا کام معاشرے میں ہونے والی بے ایمانی اور غیر معیاری ادویات کی روک تھام ہے۔
    لیکن اگر ہم حقیقی جائزہ لیں تو ہر طرف صحت کو لیکر مشکل اور پریشانی ہی دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان کے ہر خاندان کا ایک فرد کسی نہ کسی چھوٹی یا بڑی بیماری میں مبتلا ہے اس کا یہی مطلب ہوا کہ میڈیکل ایسوسی ایشن اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام نہیں دے رہا ۔
    گورنمنٹ ہسپتالوں کا حال ایسا ہے کہ خیراتی ہسپتالوں کی مانند ہے نہ تو ڈاکٹروں کی سہولتیں موجود ہیں اور نہ دوائیاں موجود گورنمنٹ فراہم بھی نہیں کرتی ہے ہے انہیں کچھ بے ایمان ملازمین لالچ کی بنا پر میڈیکل اسٹور میں اپنے منافع کے لئے فروخت کردیتے ہیں۔
    مزید ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد کے مختلف علاقے جیسے حالی روڈ، ذیل پاک ، مارکیٹ میں لوگوں نے جعلی دواﺅں کا کارخانے کھول رکھے ہیں۔
    چند میڈیکل اسٹورز مالکان اپنے مفادات کو بلندیوں تک پہنچانے کے لئے غیر معیاری اور جعلی دوائیں فروخت کرتے ہیں جس سے انہیں ماہانہ 30%فیصد تک منافع ہوتا ہے ۔
    سقیہ حادثات جو کہ ایمرجنسی کے لئے 24گھنٹے الرٹ رہتا ہے جہاں گورنمنٹ کی جانب سے لاکھوں روپے مالیت کی دوائیں فراہم کی جاتی ہیں وہیں غریب عوام ایمرجنسی کی صورت میں دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں ۔روز کی بنیاد پر 10میں سے 8مریضوں کو ادوایات خریدنے کے معاملات ہیں ۔
    جن دواﺅں کو گورنمنٹ کی طرف سے فروخت کرنے پر پابندی ہے وہیں حیدرآباد کے 11میڈیکل اسٹور پر وہ دوائیں فروخت کی جاتیں ہیں۔
    میڈیکل ایسوسی ایشن کو چاہتے کہ وہ اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ سر انجام اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کریں۔
   
دوستوں سے انٹرنیٹ سے
غلام قادر تھیبو Cumhsکے میڈیکل Supridentہیں
جرنل فزیشن ڈاکٹر شائستہ
Base Reporting
قربان پنور (Reporter of Awar)
شاہد لغاری نوری آباد Drug Inspector
میرل بھٹو (civil hospital Kotri)Police Officer
رویال میڈیکل اسٹور کوٹری شاہد /تنویر Chemist
مرکز صحت حیدرآباد لطیف آباد نمبر 10۔


......................................................................................

تنسیخ شدہ دوائیں اور ان کی فروخت (یونٹ نمبر۴)

ماریہ شیخ
رول نمبر:۴۳
کلاس     ایم اے پریویس

 انسانی زندگی میں مرض وادویہ لازم و ملزوم ہیں۔ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور وہ مرض کے حساب سے دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ اور وہ دوائیں ہمےں شفایاب کرنے کا ذریعہ ہیں لیکن اگر یہی دوائیں جو منسوخ تاریخ کے ساتھ ہمےں دے دی جاتی ہیں تو وہ موت کا باعث بن جاتی ہےں لہذا دوا خریدتے وقت اس کی تاریخ تنسیخ ضرور دیکھ لیں۔
    ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق تنسیخ شدہ دوائیں جس مےں کئی قسم کے مزید امراض کا باعث بنتی ہیں جیسے کہ کسی بھی قسم کی الرجی ، پیٹ کی کئی تکالیف الٹی دست وغیرہ اور اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو وہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ان دوا ¶ں کی فروخت کے اصل ذمہ داری میڈیکل اسٹور کے مالکان ہیں جن کو صرف دوا ¶ں کی فروخت سے سروکار ہوتا ہے انسانی زندگیوں سے نہیں اور وہ ایسا یوں کرتے ہیں کہ ان کے پاس جن ادویات کی فروخت نہےں ہوتی اور وہ کافی مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں اور ان کی استعمال کی تاریخ گزر جاتی ہے تو وہ اس کو پہلے بیچتے ہےں تاکہ ان کا مال نکل جائے چاہے اس کے بدلے مےں کتنی ہی انسانی زندگیاں ختم ہوجائیں پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر بھی لاگو ہوتی ہے جو اس جرم مےں برابر کی شریک ہوتی ہے اگر حکومتی سطح پر اس جرم کو پکڑا جائے تو کبھی بھی انسانی زندگیوں کا ضائع نہ ہو تنسیخ تاریخ کی دوائیں خاص طور پران ہیں جہاں غربت اور جہالت نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہےں وہ غریب لوگ ان دوا ¶ں کا مستقل استعمال کرتے ہےں اور کئی سنگین قسم کے امراض مےں مبتلا ہوجاتے ہیں اور آخر کار موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سر کاری ہسپتالوں میں یہ ادویات استعمال کی جاتی ہیں جہاں کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہےں ہوتا ۔آج پسماندہ علاقوں مےں بیمار یاں ، تکالیف کی اصل وجہ یہ ہی دوائیں ہیں جو مرض کو کم کرنے کے بجائے بڑھانے مےں مددگار ہوتی ہیں۔
   رپورٹ کے مطابق حال ہی مےں لےاری جنرل اسپتال مےں تنسےخ شدہ دواﺅں کو لےکر پڑنے والا چھاپا ہے جس مےں ٹرک بھر کر جاری اور تنسےخ شدہ دوائےں برآمد کی گئی ہےں۔ ملزمان کا ان جان لےوا دواﺅں کو جمع کرنے کا مقصد مرےضوں کو زےادہ پےسوں مےں فروخت کرنا ہے۔ ان درندوں کے لئے انسانی جانےں نہےں بلکہ دولت زےادہ اہم ہے۔ اےسے بہروپےوں کی لمبی قےد اور سخص قوائد قائم کرنے چاہئےں تاکہ انہےں عبرت حاصل ہوسکے۔ تنسےخ شدہ دواﺅں سے ہونے والے نقصانات جےسے جلد کی خارش اور دمع جےسے امراض انسانی زندگی مےں ہمےشہ رہ جاتے ہےں اور اکثر جان لےنے کا باعث بنتے ہےں اس کا ذمہ دار کون ؟ حکومت ؟ ےا ےہ درندے بخود ےہ اےک سوالےہ نشان رہے گا۔ انسانی جان جےسے اب سستی ترےن چےز بن چکی ہے جو ہے اسے لےنے اور کھانے کے انتظار مےں بےٹھا ہے۔ دوائےاں جنہےں ہم مرض سے نجات پانے کا سامان سجھتے ہےں وہ شاےد وہ اب کہےں کہےں جان لےنے کی وجہ بھی بن گئی ہے۔ اگر بےچنے والے احتےاط نہےں کررہے تو لےنے والوں کو عقل اور احتےاط دونوں خود کرنی چاہئے۔ نقصان خرےدنے والوں کا ہے بےچنے والوں کا نہےں ۔
  ہم حکومت سے یہ درخواست کرتے ہےں کہ ان دوا ¶ں کی فروخت کو غیر قانونی اور جرم کے طور پر لاگو کیا جائے اور اگر کوئی ادارہ یا شخص تنسیخ تاریخ دوائیں بیچنے مےں ملوث نظر آئے تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ معصوم انسانی جانوں کو ناقابل علاج امراض اور تکلیف دہ موت سے محفوظ رکھا جاسکے                   
......................................................................................

معیاری اور غیر میعاری دواﺅں میںفرق(یونٹ نمبر۵

     فارینہ اسلم 
     ایم اے پریویس
رول نمبر:۱۲
Many proof and composing mistakes
پوٹینسی :کسی بھی دوائی کی مقدار اور اس کے اثر انداز ہونے کو پوٹینسی کہتے ہیں۔
FEKC:کتنے وقت میںدوائی اثر انداز ہو رہی ہے۔
    معیاری دوائیاں پوری Potencyاور FEKCکے مطابق تیار کی جاتی ہیںےہ دوائیاں ایسا عمل وقت پر مکمل کرتی ہیں۔ معیاری دوائیوں میںجو مادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ ماہروں کی زیر نگرانی میں ےہ ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ معیاری دوائیاں حفظانِ صحت کے مطابق اور بہترین ماحول میں تیار کی جاتی ہیں دوائیوں کے تیار ہونے میں جو مشین اور فلاسز استعمال ہوتے ہیں وہ صاف ستھرے ہوتے ہیں تاکہ دوائیوں کو نمی سے محفوظ رکھا جا سکے تاکہ ان کی خصوصیت میں کوئی فرق نہ آئے۔         
ان دوائیوں کو بہت اچھی مینو فیکچرنگ میں تیار کیا جاتا ہے ان کی Source of Raw material زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو معیاری دوائیاں ہوتی ہیں ان میں دو ا فروشوں کو کم آمدنی ہوتی ہے مثال کے طور پر معیاری دوائی کی قیمت اگر100روپے ہے تو اس میں دو ا فروشوں کو بمشکل 5سے10روپے بچت ہوتی ہے جبکہ غیر معیاری دوائیوں سے دو ا فروشوں کو100میں سے50سے 60روپے کا غیر متوقع اور حیران کن منافع ہوتا ہے۔
غیر میعاری دوائیاں
     غیر معیاری دوائیوں میں معیاری دوائیوں والی خصوصیات نہیں پائی جاتی ہیں ان دوائیوں میںیا تو بہت زیادہ یا بہت کم فعال جزو استعمال کئے جاتے ہیں ےہ دوائیاں خراب آلودی اور ناقص پیکنگ کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں ۔ ہر صورت میں ےہ دوائیاں قانونی طور پر خامیوں سے بھر پور اور جان بوجھ کر بنائی جاتی ہیں ۔ غیر معیاری دوائیاںFEKCاور Potencyکے مطابق تیار نہیںکی جاتی ہیں جس کے باعث ےہ دوائیاں اپنا عمل وقت پر مکمل نہیں کر پاتی ہیں ۔ مثلاً اگر کسی دوائی کے ڈبے پر دوائی کی مقدار250گرام لکھی تو اس ڈبے کے اندر200گرام مقدار موجود ہوتی ہے جبکہ غیر معیاری دوائیوں کے اندر بہترین کوالٹی موجود نہیں ہوتی ہے ۔ ےہ دوائیاں غیر مو ¿ثر اور ممکنہ طور پر ےہ مریض کےلئے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ غیر معیاری دوائیاں رجسٹر اور ضرورت کے مطابق تشکیل نہیں دی جاتی ہیں جیسا کہ متعینہ منظور شدہ فعال جزو جو اس میں استعمال کیا جارہا ہو اس کی مقدار اگر زیادہ ہو جائے تو وہ مریض کےلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔ ہے کہ اس دوائی سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
    سرکاری اسپتالوں کو جو ادوےات فراہم کی جارہی ہےں وہ غےر معےاری ثابت ہوئےں۔ رےاست کے محکمہ ڈرگ و فوڈ کنٹرول کی جانب سے مذکورہ نمونے کی جانچ سے ےہ انکشاف ہوا ہے کہ دوا کے اوپر سے مےجن اجزاءکی موجودگی کی معلومات درج کی جاتی ہےں۔ نقلی دوائےوں کی جانچ سے Maximizin -625 (Amoxicillin Trihyrate and) ان مےں سے مےں کچھ بھی موجود نہےں پاےا گےا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اےک ٹکےہ مےں 500ملی گرام کی جگہ صفر ملی گرام (Antiobiotic) نام کی انفکشن کے تدارک (Potassium Clauvnate) موجود پاےا گےا اور ےہ دوائی کسی بھی ٹےسٹ مےں کامےاب نہےں ہو پائی ہے۔ ظاہر ہے اس معاملے مےں Amoxicillin گرام کی مےڈےا مےں تفصےلات آنے سے اےک طرف عوامی حلقوں مےں سرا سےمگی پھےلی ہوئی ہے اور دوسری جانب سےاسی گلےاروں مےں ہلچل مچی ہے تاہم نقلی دوائےوں کا شکار ہونے والے مرےضوں کو انصاف ملے گا۔ اس بارے مےں کسی خوش امےدی کی ضرورت نہےں کےونکہ حکومت ہمےشہ آدم خوروں کی طرف داری کرنے مےں ےد طولی رکھتی ہے۔ آج تک کتنے اسکےنڈل طشت ازبام ہوئے مگر کےا کبھی کسی گناہ گار کو قانون سے کٹھہرے مےں کھڑا کےا گےا ۔ حےرانگی کی کوئی حد نہ رہی کہ سبھی نمونے کسوٹی پر کھرا نہےں اترے۔ لےکن سوال ےہ ہے کہ آج تک نام نہاد حےات Maximizin-625 جب بخش دوائےوں کے نام پر ڈاکٹروں، اسپتالوں مےں دوا لےنے والے عملہ اور اس کو پرکھنے والوں پر ےہ اولےن فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی جانو ں کو مد نظر رکھ کر
 دوائی سپلائی کو ہمےشہ جانچ لےا کرےں۔ وہ خود بھی انسان ہےں۔ اس لےءاس بات کا انہےں خود بھی احساس ہونا چاہئے کہ ان کی اےک ذرا سی غلطی ےا بھول چوک سے کتنے لوگوں کی جانےں جاسکتی ہےں اور ان کی صحےح پرکھ کرنے سے اصل مےڈےکل سپلائی لےنے سے کتنے مرےض شفاےاب ہوسکتے ہےں۔ انسان کی زندگی اےک تحفہ الہی بھی ہے امانت اور پراپرٹی بھی ہے۔ اگر کوئی گائے بےمار ہوجاتی ہے تو اس کا مالک گھر گھرن ہےں جاتا ہے کہ گائے بےمار ہے اس کی جان بچانے کے لئے اپنا خون عطےہ مےں دے دو۔ اس کے مقابل مےں اگر نو زائد بچہ شدےد بےمار ہو اور اس کے لئے خون کی اشد ضرورت ہو تو ٹی وی، رےڈےو اور اخبارات کے ذرائع لوگوں سے اس کے موافق خون گروپ دےنے کی از راہ انسانےت لوگوں سے اپےل کی جاتی ہے تاکہ اےک ننھی سی جان بچائی جاسکےں۔ ہمارے ڈاکٹروں پر بھی فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی عظمت ذہن مےں رکھ کر صرف با اعتبار کمپنی اور معےاری دوائےاں تجوےز کرےں۔ محض پےسوں کے لئے نہ جئےں۔ اسی طرح حکومت کا فرض اول ہے کہ نقلی دوا کے بد اندےش سوداگروں اور اس مےں ملوث افراد کے خلاف بھی قانونی کاروائی عمل مےں لا کر اور ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ےہ نہ صرف نقلی دوائےوں کی وجہ سے بلاوجہ تکلےف اٹھانے والوں کے استھ انصاف ہوگا بلکہ دوسرے لوگ بھی عبرت پکڑےں گے۔

....................................................................
آؤٹ لائین
غیرمعیاری دوائیں

ثناء شیخ:رول نمبر۵۵ ٹاپک : (جعلی دوائیں اور انکے منفی اثرات )
آؤٹ لائین
۱۔جعلی دواؤں کی خریدوفروخت ایک کاروباربن گیا ہے ۔
۲۔جعلی دواؤں کے ساتھ ساتھ ایکسپائردواؤں کی خریدوفروخت میں بھی اضافہ ۔
۳۔ڈرگ افسران کی غیرذمہ داریاں
۴۔سرکاری اسپتالوں اور ڈاکٹرزکی ملی بھگت ۔
۵۔جان لیوامختلف امراض کی بیماریوں میں بھی اضافہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماریہ شیخ:رول نمبر ۳۴ *sub topic*(ایکسپائر دواؤں کی فروخت)
آؤٹ لائین

جہاں ادویات انسانی صحت کے لئے مسیحا ثابت ہوتی ہیں وہاں ہی تاریخ و تنسیخ گز ر جانے کے بعد فروخت ہونے والی دوائیں
صحت انسانی پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ 
ا۔تنسیخ شدہ دوائیں زہریلی ہونے کے باعث مرض میں کمی کو در کنار موجودہ مرض میں اضافہ اور اسکے ساتھ کی دیگر امراض کے جسم میں آمد کے أے معاون ثابت ہوتی ہیں۔

۲۔تنسیخ شدہ دواؤں کو فروخت کرنے کا سبب یہ ہی ہوتاہے کہ پرانے اسٹاک کو دیر تک فروخت کیا جائے اور نئے اسٹاک کو زیادہ اورمہنگے داموں میں لوگوں کو فروخت کیا جائے ۔

۳۔تنسیخ شدہ دواؤں کی فروخت اکثر دکاندار اور کہیں ڈاکٹرز کی ملی بھگت سے ہوتی ہے لیکن وہ ان دواؤں کو آگے چلاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نقصانا ت کتنے خوفناک اور بھیانک ہیں اور اس سے کتنی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے ۔

۴۔یہ پرانی دوائیں کم داموں میں بیچی جاتی ہیں اور غربت سے ہماری عوام کبھی یہ ادویات خریدنے کی ہمت کر بھی لے تو اس کے انہیں بعد میں انتہائی درد ناک نتیجے دیکھنے پڑتے ہیں۔

۵۔ان ایکسپائر دواؤں کے انجذات کی وجہ سے انسانی جسم کے اندر تکلیفدہ اور درد ناک مسئلے در پیش آتے ہیں جیسے دل کے امراض ، جسم پھولنا ، الٹیاں آنا ، اور چکر آنا شامل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارینہ اسلم :رول نمبر۱۲ *subtopic*(معیاری اور غیر میعاری دواوں میں فرق) 
آؤٹ لائین

ٍ ۱ ۔ میعاری دوایں پوری فعک FEKC اور Potency کے ساتھ بنائی جاتی ہے۔
۲۔جتنی مقدار دوائی کے ڈبے پر درج ہوتی ہے اندر بھی اُتنی ہی مقدار موجود ہوتی ہے۔ مثلاََ اگر لیبل پر 250 گرام لکھا ہے اندربھی 250 گرام موجود ہوگی۔
۳۔معیاری دوائی سے مریض وقت پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔
۴۔معیاری دوائی بیماری پر درست تریقے سے کام کرتی ہے۔
۵۔غیر معاری دوائیں FEKC اور POTENCY کے مطابق تیار نیہں کی جاتی۔دوائی کے اندر بہترین کوالٹی موجود نہیں ہوتی۔ جس کے باعث وہ دوائیں اپنا عمل وقت پر مکمل نہیں کر پاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور خان۔ رول نمبر ۷۲*sub topic*(محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کی غیر ذمے داریاں):۔
آؤٹ لائین

۱) جعلی ادویات ایک سنگین اور جان لیوا مسئلہ کیسے بن گیا۔۔
۲) جعلی ادویات پر لوگوں کے عدم اعتماد کی وجہ۔۔
۳) محکمہ صحت اور متعلقہ ادارے اس سنگین مسعلے کی تشہیر کرنے میں تزبذاد کا شکار کیوں ہیں۔۔
۴) محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کو کس طرح کی کارکردگی دکھا نی چا ہئیے اس مسعلے پر قابوپانے کے لئے۔۔
۵) سرکاری اور نیجی اداروں کی غیر ذمے داریوں کا ا نتہائی اثر کس طرح لوگوں پے پڑھ رہا ہے۔۔  

No comments:

Post a Comment