آرٹیکل
تحریر۔۔۔۔شاہ رخ شیخ
رول نمبر ۷۱
ایم ۔ای۔پریویس
حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علاج ہو
پاکستان کا چھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں۔
جہاں ہر روزپانچ لاکھ کلو سے بھی زیادہ کچرا پھیکا جاتا ہیں۔
حیدرآباد میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں
شہری کچرا جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ
بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہیں۔حیدرآباد میں با کمال افسران کی لا جواب
کار کردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑدیئے ہیں کیونکہ عوامی خدمت کیلئے
موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت و صفائی کے
انتظامات کرتے نظر آتے ہیں۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس
گئے ہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دو بھر کر دیا
ہے جہاں افسران لمبی تان کے سو رہے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسری جانب
حلقے کے منتخب نمائیندے صبح و شام عوام کی خدمت کرنے والے دعویدار کہیں نظر
نہیں آتے۔
شہر حیدرآباد میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہوگی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر
نہ ملیں گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل
چلنا نہ ممکن ہو گیا ہے۔بلدیہ حیدرآباد نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے
میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم
شہر میں صفائی کی صورتحال تا حال بدتر ہے جس پر ذمہ داران نے آنکھیں بند
کررکھی ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے لگے ڈھیر اٹھانے میں نا کام پرائیوٹ کمپنی
کے معاہدے میں تو سیع کردی گئی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ حیدرآباد سٹی کا
علاقہ بھی با اثر شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔شہر
کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو ۲۲۵ٹن کچرا ۶۹۰ روپے فی ٹن کے
حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے
باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔
حیدرآباد میں گندگی کی بدتر صورتحال کے باوجود پر کمپنی کے معاہدے میں
توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر
معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر
اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے اور صفائی پر ماہانہ
کروڑوں روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہو رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں
ہیں۔ دوسری جانب لیاقت کالونی،پنجرہ پول،لیبرٹی مارکیٹ،ہیراباد،جیل
روڈ،کلاتھ مارکیٹ،ریلوے اسٹیشن جبکہ ٹاؤن حسین آباد،گدو،لطیف آباد
۱۲،۱۱،۱۰،۸ اور قاسم آباد، گلشن سجاد میں خاکروب تسلی سے کام نہیں کر رہے
بلکہ حاضری لگانے کے بعد فیلڈ میں جانے کے بجائے گھروں کو چلے جاتے ہیں عمر
رسیدہ اور خواتین خاکروب کام کرنے کے بجائے گپ شپ میں وقت گزار دیتے ہیں
عوام سینیٹری ورکرز کو معاوضہ دے کر گٹر کی صفائی کرا رہے ہیں بلدیاتی
اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں
صفائی کی خراب صورتحال ہیں جس کی بدولت شہریوں میں بیماریاں پھیل رہی ہے
بلدیہ اعلیٰ حیدرآبادکے فرض شناس افسران کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو درپیش
بنیادی مسائل کے حل کیلئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لائیں اور عوامی
شکایات کا فوری طور پر ازالہ کریں اس کے علاوہ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ
سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں
او۔پی۔ایس اور غیر قانونی تر قیوں اور دیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو
عہدے سے فارغ کر کے صاف اور شفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو
بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ
شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
آپکا یہ آرٹیکل 488 الفاظ ہیں۔ کم از کم 600 لفاظ چاہئیں۔
”شہر میں“ سے کیا مراد ہے؟ کونسا شہر؟
اس میں نہ ُکا نام لکھا ہے اور نہ رول نمبر اور کلاس۔ ان چیزوں کے لئے بار بار ہدایت کی گئی تھی اور فیس بک گروپ پر بھی یہ یاددہانی کرائی گئی تھی۔
اس لحاظ سے آپ کا یہ آرٹیکل مسترد ہونے کے دائرے میں آتا ہے۔
شاہ رخ ایم اے پریوئس
شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علاج ہو
پاکستان کا چھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں۔
جہاں ہر روزپانچ لاکھ کلو سے بھی زیادہ کچرا پھیکا جاتا ہیں۔
شہر میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری کچرا جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہیں۔حیدرآباد میں با کمال افسران کی لا جواب کار کردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑدیئے ہیں کیونکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت و صفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دو بھر کر دیا ہے مگر صبح و شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوےدار کہیں نظر نہیں آتے۔
شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہوگی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نہ ممکن ہو گیا ہے۔بلدیہ حیدرآباد نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تا حال ابتر ہے جس پر ذمہ داران نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں نا کام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں تو سیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی با اثر شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو ۵۲۲ٹن کچرا ۰۹۶ روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔
شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود با اثر سیا سی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے اور صفائی پر ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہو رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہیں۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہیں۔
حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس اور غیر قانونی تر قیوں اور دیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدے سے فارغ کر کے صاف اور شفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔
No comments:
Post a Comment