تزمین رحمان
پروفائل : ایم -اے پرائیوٹ
13 رول نمبر:
حیدرآبا د کا ادبی ماحول
ادب کسی بھی زبان کسی بھی قوم اور کسی بھی خط زمین کا وہ سرمایہ ہوتا ہے جس
میں متعلقہ زبان و ادب کے ار تقاکی کہانی، مزاج و ماحول کے بڑھنے اور
بدلنے کا عمل اور فکرو نظریہ کی ترویج کا سامان اسطرح محفوظ کیا جاتا ہے اس
میں روج عصر کا عکس جھلکتا ہوا محسوس ہو اس لیئے ادب کو زبان کی اساس اور
فکری و تہذیبی ارتقاکا ترجمان بھی کہا جاتا ہے مادی و اقتصادی اورتنکی ترقی
اگر کسی قوم کی خوشحالی کی کہانی بیان کرنے کا سبب قرار دی جا سکتی ہے تو
ادب کو فکری ، ذہنی ، نظری اور روحانی ارتقا کی تمشیلی داستان کہا جاسکتا
ہے بلکہ بُرا ادب تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں نظریات کے ساتھ ساتھ مادی
انقلابات سماجی رجحانات اور اُن سے پیدا ہونے والی صورتے حال کا بیان ہو اس
لیئے کے ادب کا مرکز انسان ہے اور دنیا کی عام ترقیات کا محور بھی انسان
ہی ہے ۔
ان حوالوں سے جب ہم حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے
ہیں تو ہم یہاں کے ادب میں ان تمام تقاضوں کو بڑی حد تک پانے میں کامیاب
ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے تجارتی ، اقتصادی، زرعی اور
سیاسی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اس قدر اہمیت رکھنے والے اس
شہر میں تخلیق ہونے والا ادب ان تمام خصوصیات کی عکسی تصویر بن کر ابھرا ہے
۔
تشکیل پاکستان کی صور ت حال ادب کے حوالے سے زیادہ مفید اور حوصلہ افزا رخ
اختیار کر گئی تقسیم کی رد عمل کے طور پر لکھنے والوں نے جو تبد یلیاں
محسوس کیں ان کا اثر تخلیق ہونے والا ادب پر بھی گہرا پڑا تارکین وطن کی
زیادہ تر کھپت سندھ میں ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر ادبی ہنگاموں اور
تخلیق عمل کا مضبوط اور قابلِ ذکر مرکز بن گیا۔
تقسیم سے قبل جو تنظیمیں ترویح ادب کیلئے کام کر رہی تھیں وہ تو بہر حال
اپنا کردار نباہ رہی تھیں لیکن کچھ اور تنطیمیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ قیام
عمل میں آئیں ان میں کچھ تنظیمیں درج ذیل ہیں۔
بزمِ خلیل:-
یہ بزم۱۹۴۸ میں قائم ہوئی اس کے بانی ڈاکٹر شیخ محمد ابراھیم خلیل تھے اور
انہی کے نام سے یہ بزم رکھی گئی اس تنظیم کے تحت فارسی ، سندھی اور اردو
مشاعروں کا آغاز ہوا۔۲نومبر ۱۹۸۲ کو ڈاکٹر شیخ محمد ابراھیم خلیل کے وفات
پانے کے ساتھ ہی بزم خلیل ختم ہو گئی ۔
بز مِ معیار سخن:-
بزم معیار سخن ۱۴ اگست ۱۹۵۱ میں قائم ہوئی نمایاں عہددار میں نگراں :-
پیرایرانی صاحب ، صدر :-سید محمد صادق صادق علی صادق دہلوی صاحب ،
معتمر:- شفیع اللہ خان برگ یوسفی۔اس تنظیم میں شروع سے طرحی مشاعروں کو
اہمیت دی ہے پیرایرانی صاحب کے زیر سرپرستی نکلنے والے رسالے "المصطفے"میں
ہرمہینہ ان مشاعروں کی رو داد اور اگلے شاعروں کا اعلان شائع ہوا کرتا تھا۔
بزمِ صادق-:
بزم صادق کا قیام ۱۹۵۲ میں عمل میں آیا سرپرست سید صادق علی صادق دہلوی ،
صدر-: اجمل حسین ، نائب صدر شبنمبدایونی۔کار کردگی کے لحاظ سے یہ تنظیم
طرحی مشاعروں کی حد تک محدود رہی غیر طرحی مشاعر ے کرنا اس بزم کا شعار
نہیں دیا ۔
یاد گار مشاعرہ کمیٹی :-
یہ مشاعرہ کمیٹی کمشنر حیدرآباد مرحوم نیاز احمد ، جناب مرزا عابد عباس
اور جناب حمایت علی شاعر صاحب جیسی ہستیوں کی کوششوں سے ۱۹۵۹ میں قائم ہوئی
آٹھ سال تک پابندی سے مشاعرہ منعقد کرتی رہی لیکن پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا
لیکن اس کا بند ہو جانا سب ہی نے محسوس کیا آخر احساس کے زندہ رہنے کی وجہ
سے چند ہستیوں کے تعاون اور اشتراک سے ۱۹۸۱ میں ان مشاعروں کا سلسلہ دوبارہ
شروع ہو گیا یہ مشاعرے شروع ہی سے سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتے تھے اور
اب تک ہور رہے ہیں ان مشاعروں میں نہ صرف پورے پاکستان کے نمائندے اور صفِ
اول کے شعرا شریک ہوتے ہیں بلکہ حالات سازگار ہونے پر ہندوستان کے شعر ا کو
بھی دعوت سخن دی جاتی ہے ۔
اناں جمن ( اربی و ثقافتی ادارہٌ):-
۱۹۶ میں اسکا قیام عمل میں آیا صدر-:خالد وہاب نائب صدر-:کو کب جمیل ،
جنرل سیکریٹری : ارشد رضا ہیں۔اس انجمن کے تحت باقائدگی کے ساتھ ہر ہفتہ
روزنامہ "بشارت کے دفتر میں تنفیدی نشت ہو ا کرتی تھی اس کے علاوہ شام
افسانہ ، یومِ منٹو ، اور ادیب اور قومی مسائل کے عنوان سے ایک میوزیم بھی
منعقد ہوا اس میوزیم کی صورت حال ڈاکٹر رضی الدین نے کی تھی اور مہمان
خصوصی فیض احمد فیض تھے احمد ندیم قاسمی نے بھی اس میوزیم میں اپنا مقالہ
پیش کیا تھا۔
مکتبہ آگہی :-
ڈاکٹر احمد بشیر ، ڈاکٹر احسن فاروقی ، ڈاکٹر الیاس عشقی ، ڈاکٹر مبارک
علی خان، جناب عطالرحمن ، ڈاکٹر حسن منظر کے علاوہ شہر کی اور اہم شخصیات
۱۹۶ سے دیا ل داس قلب میں حیدرآباد میں شام کے وقت ہفتہ میں ایک بار ضرور
مل بیٹھنے اور گفت و شنیو کے ذریعہ ترسیل علم اور حصولِ علم کا اہتمام
ضرور کیا کرتے تھے یہی بیٹھک آگے چل کر مکتبہ آگہی کے نام سے یاد کی جانے
لگی۔
بزمِ فروغ ادب:-
۱۹۶۵ میں فروغ ادب حیدرآباد کا قیام عمل میں آیا اس کی کار کر دگی میں نہ
صرف طرحی اور غیر طرحی مشاعر ے شامل ہیں بلکہ وقتاَ فوقتا منا عتوں اور
محفل مسالموں کے انعقاد کے علاوہ تنقیدی نشستیں ، تغر یتی جلسے اور خاص
موقعوں پر خاص پرو گرام شامل ہیں۔
جلیسانِ ادب :-
جلیسانِ ادب کا قیام ۱۹۷۸ میں ان حاضرات کی سرکر دگی میں عمل میں آیا صدر
پر و فیسر حبیب ارشد، معقمد عمومی : قمر مشتاق ، معقد نشرواشاعت :عتیق
جیلانی یہ نتظیم اپنی کار کردگی کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور
متنوع پروگراموں کا انعقاد اس کاز یورہے مشاعروں ، کتابوں کی تعارفی تقاریب
اہم ادبی شخصیات کے اعزاز میں تستوں کا اتعقاد اس کی کارکردگی میں شامل
ہیں وہ تنطیمیں جن کا احوال بیان نہیں کیا جا سکا ان کے نام یہ ہیں۔بزمِ
غزل (۱۹۶۲)
بزمِ عرفان (۱۹۶۲)
کاروانِ ادب (۱۹۶۴)
بزمِ غالب (۱۹۶۴)
بزمِ شعرو ادب (۱۹۶۵)
بزمِ تخلیق (۱۹۶۸)
خیابانِ ادب (۱۹۷۵)
مجلس اقبال (۱۹۷۶)
شعاعِِ ادب (۱۹۷۹)
ایوانِ ادب (۱۹۸۰)
محفلِ ادب (۱۹۸۲)
انجمنِ صرف (۱۹۸۳)
۱۹۸۳ تک وجود میں آنے والی ادبی تنظیمیں اور ان کی کارکردگی کا ایک
جائزہ نظر نواز ہوا۔ اب ۱۹۸۳ کے بعد سے اب تک کی کچھ تنظیموں کا ذکر
اجمالاً بیان ہوتا ہے ۔
رابطہ :۔
اس ادبی تنظیم کے کرتا دھرتا جناب امین الدین جالندھری ہیں۔ باقی لوگ
تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ اس ادبی تنظیم نے ذیادہ تر تنقیدی نشستیں بلا تعطل
جاری ہیں ۔ جو عشرت علی خان کے گھر پر منعقد ہوتی ہیں۔تنقیدی نشستوں کے
علاوہ کتابوں کی تقاریب رو نمائی شخصیات کے ساتھ شامیں منانے کے علاوہ
کتابوں کی اشاعتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
زینہ:۔
ساجد رضوی اور پروفیسر مرزا سلیم کی کوششوں سے کئی خوبصورت اور یادگار
ادبی تقارعب اس شہر کو دیں، لیکن یہ تنظیم چند زینے چڑھنے کے بعد اپنا
توازن برقرار نہ رکھ سکی اس وقت غیر متحرک ہے۔
ستارے :۔
شاکر جمال اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے گاہے بہ گاہے مختلف المنوع ادبی
پروگراموں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی سست رفتاری کے ساتھ یہ تنظیم
زندہ ہے۔شمع ادب :۔
نیر صدیقی اس تنظیم کے روح و رواں ہیں ۔یہ تنظیم سوتی جاگتی کیفیت میں
رہتی ہے۔ جب دل چاہا کوئی مشاعرہ یا ادبی ایوارڈ سے ادبی شخصیات کو نوازدیا
اس کے بعد پھر لمبی نیند۔
سرمایا شعر و ادب:۔
ایک طرح سے عباس علی عباس علی عباس کی یہ ادبی بیٹھک ہے جو وہ مہینوں ، برسوں میں اپنے گھر پر سجا لیتے ہیں ۔
بزمِ اخبار قابل: -
شاہد نظامی پانچ سات شاعروں کے ٹولے کو لیکر شعری نشست اپنے گھر پر جب جی
چاہتا ہے رکھ لیتے ہیں ۔پرانی تنظیموں میں سے بزم فروغِ ادب ایک ایسی
تنظیم ہے جو اپنے قیام لے لے کر اب تک تو اثر کے ساتھ مشاعروں اور تعزیتی
اجلاس کا انعقاد کر رہی ہے۔
موجودہ ادبی صورتحال: -
حیدر آباد کی موجودہ ادبی صورتحال ماضی کے مقابلے کی طرح بھی خوش کن نہیں
ہے ۔ اچھے نثر نگاروں خاص طور پر اضانوی ادب کے لحاظ سے تو یہ شہر بنجر
ہے۔ دور دور تک کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا ۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں
عبدالقادر جو نیجو اور نور الہد اشاہ کے حیدر آباد کے نام کو ملکی سطح تک
پہنچایا تھا ۔ کچھ عرصے سے یہ دو نام بھی گمشدہ ہوگئے ہیں ۔ البتہ مشاعروں
کی ایک فوج اس شہر کی شعری اور ادبی محفلوں کو رونق بخشے ہوئے ہے ۔ لیکن
عام آدمی کے لیئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کتنے حقیقی شاعر ہیں اور کتنے محض
دکھاوے کے شاعر ہیں شاعری میں بھی ایک نام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر
پہنچایا جاتا ہے اور وہ ہے پروفیسر عنایت علی خاں لیکن ان کی شہرت بھی
مزاحیہ شاعری کی ہے ۔گاہے گاہے کچھ ادبی تنظیمیں رو کھے پھیکے ادبی پروگرام
منعقد کرلیتی ہیں کچھ ادبی روق رکھنے والوں کے لیئے کچھ دیر کے لئے ادبی
روق کا ساماں فراہم کردیتی ہیں ۔ اس کے بعد مستقل سناٹا ہے۔
اس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں ۔ ادبی مطالعہ اب لوگوں کیلئے اپنی کشش کھو
چکا ہے ۔ تربیت کرنے والے اور خود سے آگے بڑھ کر سیکھنے والے اپنے اپنے
دائرے میں قید ہیں ۔ حیدر آباد کو کراچی شروع ہی سے نگل رہا ہے ۔ اس سے بھی
حیدر آباد کی ادبی فضا کو نقصان ہوا ہے ۔ جو بڑا نام دنیا سے رخصت ہوا ہے ۔
اس کی جگہ لینے دوسرا نہیں آیا ۔ جو دنیا میں آیا ہے ۔ اسے ایک دن جانا ہے
۔ یہ قدرتی عمل ہے ۔ اس پر کسی کا اختیار نہیں ۔ مگر جانے ایسا ہی سناٹا
پھیلتا ہے جو آج حیدر آبادکے ادبی ماحول پر چھایا ہوا ہے ۔ وقت کے سفرمیں
ایسادوار بھی آتے رہے ہیں ۔ ہمیں اچھے کی امید کو چھوڑنا نہیں چاہئے ۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر ؔ
غم نہ کر عمر پڑی ہے ابھی
No comments:
Post a Comment