ثناء شیخ
رول نمبر:۵۵
ایم۔اے (پریویس)
میڈیااینڈکمیونیکیشن
آرٹیکل:
پاکستانی فلمیں اور سینما گھروں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان
فلم تمام مواصلات کی تراکیب کی سب سے زیادہ طاقتورقسم ہے ۔جو انسان کی نفسیات پر گہرااثرچھوڑ جاتی ہے اوریہی گہرااثرمعاشرے پراثراندازہوتا ہے چاہے وہ ہالی وڈہو ،بالی وڈیالولی وڈکسی بھی ملک کی فلم انڈسٹری اس ملک کی ثقافت سے پوری دنیاکوروشناس کرواتی ہے اوریہیں سے ان کی ترقی کا پتہ بھی چلتا ہے کہ وہ کس طرح کا کلچرپروموٹ کررہی ہیںیا کرناچاہتی ہیں ۔پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور عروج کی بحث ہمارے ہاں کافی عرصے سے جاری ہے ۔اخبارات ہوںیاٹی وی کے پروگرام ہر جگہ ماہرین اپنی رائے کا اظہار کرتے نظرآتے ہیں 70's60's,50'sکی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کا بامِ عروج کا دورتھا جہاں ایسی فلموں کے نام یادآتے ہیں جو اپنی کہانی ،اداکاری ،موسیقی ،گلوکاری اورہدایت کاری کے حوالے سے ناقابلِ فراموش ہیں جیسے کہ کوئل،نیند،فرنگی،آئینہ،سچائی ،انصاف اورقانون، ہیررانجھا ،امراؤجان ادا،خاموش رہووغیرہ ۔پھرہم نے (1988-2002)کا دوربھی دیکھا جہاں گھرکب آؤگے اورچوڑیاں جیسی فلموں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ایک اندازے کے مطابق 80کی دہائی میں ہمارے ملک میں سینما گھروں کی تعداد1100تھی جوکم ہوکر120رہہ گئی ہے ۔کسی دورمیں پاکستان مین سالانہ 100فلیمیں بڑے پردے کی رونق بنتی تھیں جن کی تعدادکم ہوکرآج چندرہہ گئی ہے۔پاکستانی فلمی سینمانے وہ وقت بھی دیکھاجب ایک بینرکے نیچے دس دس فلمیں چلتیں تھیں4158یکن بدقسمتی سے اورصرف بدقسمتی ہے کہ اب پاکستانی فلم انڈسٹری پچھلی چنددہائیوں سے بدترین زوال کا شکارہے۔جوکہ اب کچھ بہتری کی طرف آتی دکھائی دیتی ہے ۔
دراصل لوگ میعاری اورسستی تفریح چاہتے ہیں ۔غیرمعیاری اورعامیانہ فلموں نے لوگوں کو سینماگھروں سے دورکردیا اوررہی سہی کثرکیبل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی (2002-2009)مشرف کے دورمیں انڈین فلموں کو سینماؤں کی زینت بنا کر لوگوں کو مغلِ اعظم جیسی پرانی اور عشقیہ فلموں کی طرف ایسا دوڑایا گیا کہ آخرکارسینماہالزآہستہ آہستہ خالی ہونے لگے۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیانے ایسے قدم جمائے کہ سینماگھرویران ہوگئے ۔گھربیٹھے لوگ ڈاؤن لوڈنگ اورآن لائن فلمیں دیکھنے لگے ۔اب اگرفلمی صنعت پر نظرڈالی جائے توبہت کوششوں کے بعدپاکستانی فلم انڈسٹری ایک بارپھر کامیابی کے سفرپر چل پڑی ہے۔یہی فلمسازی کو بہترین وقت ہے یہ دورنوجوانوں کا دورہے جواچھی سوچ کے ساتھ فلمیں بنارہے ہیں ۔ہمارے فنکاروں میں بھرپورصلاحتیں موجودہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلمیں عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ان کی کامیابی نے دنیابھرمیں فلم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اورگذشتہ چندماہ کے دوران اس سلسلے میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔بھارت سمیت دنیا بھرمیں موجودفلم کے شعبے سے وابستہ افراد نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کو اہم قراردیااوراس کی تعریف بھی کی۔
اگرحیدرآباداورکراچی جیسے سندھ کے بڑے شہروں کی بات کی جائے جہاں پاکستانی فلمیں اورلوگوں کا سینما گھروں کی طرف بڑھتاہوارجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری بتدریج ترقی کی جانب گامزن ہے جیسے کہ 70اور80کی دہائی میں تھی۔کراچی میں CinemexاورNueplexجیسے لاتعدادسینماگھرموجودہیں جبکہ حیدرآبادمیں سینما گھروں کی تعدادصرف تین (3)ہیں جن میں سینی موش ،شہاب اوربمبینو شامل ہیں۔بھارتی فلموں سے لطف اندوزہونے والی قوم آج پاکستانی فلمیں دیکھنے کو زیادہ فوقیت دے رہی ہے حال میں ریلیزہونے والی بِن روئے ،کراچی سے لاہور،نامعلوم افراد،جوانی پھرنہیں آنی اوررا نگ نمبرجیسی پاکستانی فلموں نے فلم انڈسٹری میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔پاکستانی سینما گھربھی پاکستان فلموں کو پروموٹ کرنے میں اہم کرداراداکررہے ہیں ۔خداکے لئے،بول اورواریہ تین فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان میں ریکارڈبزنس کیا بلکہ ان فلموں کو انڈیااوردنیابھرمیں بھی بہت سراہا گیا ۔جس تیزی سے پاکستان میں فلمیں بن رہی ہیں لگتا ہے وہ وقت دورنہیں جب پاکستانی فلمی شائقین کا رجحان پھرسے اپنے ملک میں بننے والی فلموں کی طرف ہوجائے گا۔لوگ چاہے کسی بھی ملک یا طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں فارغ اوقات میں لطف اندوزہونے کیلئے سینماگھروں کی طرف رُخ کرتے ہیں اس لئے ملک کے تمام بڑے شہروں میں نئے اور جدیدٹیکنالوجی پر مبنی سینما گھروں کاقیام ہوناچاہئیے جویقیناًشائقین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کافی حدتک مددگارثابت ہونگے ۔
رول نمبر:۵۵
ایم۔اے (پریویس)
میڈیااینڈکمیونیکیشن
آرٹیکل:
پاکستانی فلمیں اور سینما گھروں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان
فلم تمام مواصلات کی تراکیب کی سب سے زیادہ طاقتورقسم ہے ۔جو انسان کی نفسیات پر گہرااثرچھوڑ جاتی ہے اوریہی گہرااثرمعاشرے پراثراندازہوتا ہے چاہے وہ ہالی وڈہو ،بالی وڈیالولی وڈکسی بھی ملک کی فلم انڈسٹری اس ملک کی ثقافت سے پوری دنیاکوروشناس کرواتی ہے اوریہیں سے ان کی ترقی کا پتہ بھی چلتا ہے کہ وہ کس طرح کا کلچرپروموٹ کررہی ہیںیا کرناچاہتی ہیں ۔پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور عروج کی بحث ہمارے ہاں کافی عرصے سے جاری ہے ۔اخبارات ہوںیاٹی وی کے پروگرام ہر جگہ ماہرین اپنی رائے کا اظہار کرتے نظرآتے ہیں 70's60's,50'sکی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کا بامِ عروج کا دورتھا جہاں ایسی فلموں کے نام یادآتے ہیں جو اپنی کہانی ،اداکاری ،موسیقی ،گلوکاری اورہدایت کاری کے حوالے سے ناقابلِ فراموش ہیں جیسے کہ کوئل،نیند،فرنگی،آئینہ،سچائی ،انصاف اورقانون، ہیررانجھا ،امراؤجان ادا،خاموش رہووغیرہ ۔پھرہم نے (1988-2002)کا دوربھی دیکھا جہاں گھرکب آؤگے اورچوڑیاں جیسی فلموں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ایک اندازے کے مطابق 80کی دہائی میں ہمارے ملک میں سینما گھروں کی تعداد1100تھی جوکم ہوکر120رہہ گئی ہے ۔کسی دورمیں پاکستان مین سالانہ 100فلیمیں بڑے پردے کی رونق بنتی تھیں جن کی تعدادکم ہوکرآج چندرہہ گئی ہے۔پاکستانی فلمی سینمانے وہ وقت بھی دیکھاجب ایک بینرکے نیچے دس دس فلمیں چلتیں تھیں4158یکن بدقسمتی سے اورصرف بدقسمتی ہے کہ اب پاکستانی فلم انڈسٹری پچھلی چنددہائیوں سے بدترین زوال کا شکارہے۔جوکہ اب کچھ بہتری کی طرف آتی دکھائی دیتی ہے ۔
دراصل لوگ میعاری اورسستی تفریح چاہتے ہیں ۔غیرمعیاری اورعامیانہ فلموں نے لوگوں کو سینماگھروں سے دورکردیا اوررہی سہی کثرکیبل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی (2002-2009)مشرف کے دورمیں انڈین فلموں کو سینماؤں کی زینت بنا کر لوگوں کو مغلِ اعظم جیسی پرانی اور عشقیہ فلموں کی طرف ایسا دوڑایا گیا کہ آخرکارسینماہالزآہستہ آہستہ خالی ہونے لگے۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیانے ایسے قدم جمائے کہ سینماگھرویران ہوگئے ۔گھربیٹھے لوگ ڈاؤن لوڈنگ اورآن لائن فلمیں دیکھنے لگے ۔اب اگرفلمی صنعت پر نظرڈالی جائے توبہت کوششوں کے بعدپاکستانی فلم انڈسٹری ایک بارپھر کامیابی کے سفرپر چل پڑی ہے۔یہی فلمسازی کو بہترین وقت ہے یہ دورنوجوانوں کا دورہے جواچھی سوچ کے ساتھ فلمیں بنارہے ہیں ۔ہمارے فنکاروں میں بھرپورصلاحتیں موجودہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلمیں عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ان کی کامیابی نے دنیابھرمیں فلم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اورگذشتہ چندماہ کے دوران اس سلسلے میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔بھارت سمیت دنیا بھرمیں موجودفلم کے شعبے سے وابستہ افراد نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کو اہم قراردیااوراس کی تعریف بھی کی۔
اگرحیدرآباداورکراچی جیسے سندھ کے بڑے شہروں کی بات کی جائے جہاں پاکستانی فلمیں اورلوگوں کا سینما گھروں کی طرف بڑھتاہوارجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری بتدریج ترقی کی جانب گامزن ہے جیسے کہ 70اور80کی دہائی میں تھی۔کراچی میں CinemexاورNueplexجیسے لاتعدادسینماگھرموجودہیں جبکہ حیدرآبادمیں سینما گھروں کی تعدادصرف تین (3)ہیں جن میں سینی موش ،شہاب اوربمبینو شامل ہیں۔بھارتی فلموں سے لطف اندوزہونے والی قوم آج پاکستانی فلمیں دیکھنے کو زیادہ فوقیت دے رہی ہے حال میں ریلیزہونے والی بِن روئے ،کراچی سے لاہور،نامعلوم افراد،جوانی پھرنہیں آنی اوررا نگ نمبرجیسی پاکستانی فلموں نے فلم انڈسٹری میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔پاکستانی سینما گھربھی پاکستان فلموں کو پروموٹ کرنے میں اہم کرداراداکررہے ہیں ۔خداکے لئے،بول اورواریہ تین فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان میں ریکارڈبزنس کیا بلکہ ان فلموں کو انڈیااوردنیابھرمیں بھی بہت سراہا گیا ۔جس تیزی سے پاکستان میں فلمیں بن رہی ہیں لگتا ہے وہ وقت دورنہیں جب پاکستانی فلمی شائقین کا رجحان پھرسے اپنے ملک میں بننے والی فلموں کی طرف ہوجائے گا۔لوگ چاہے کسی بھی ملک یا طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں فارغ اوقات میں لطف اندوزہونے کیلئے سینماگھروں کی طرف رُخ کرتے ہیں اس لئے ملک کے تمام بڑے شہروں میں نئے اور جدیدٹیکنالوجی پر مبنی سینما گھروں کاقیام ہوناچاہئیے جویقیناًشائقین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کافی حدتک مددگارثابت ہونگے ۔
No comments:
Post a Comment