Improved
Mehnaz Sabir MA Prev-Article
یہ ہزاروں نو جوان کہاں سمائیں گے ۔
مہناز صابر ایم اے پریوئس
آرٹیکل
یہ ہمارے نو جوانوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ دنیا کے سارے مضمو ن چھو ڑ کر ہر ایک ٹیلیوژن ، اخبار یا ریڈیو میں جا نا چاہتا ہے قریب قریب ہر یونیورسٹی نے یہ مضا مین پڑھا نے شروع کر دیے ہیں ایک زمانے میں انہیں جر نلز م یا صحا فت کہا جا تا تھا پھر میڈیا کہلا یا اور اب ما س کمیونیکیشن کہنے لگے ہیں حال یہ ہے کہ اکثر ادا روں میں اتنے لڑکے اور لڑکیاں داخل ہو گئے ہیں کہ کمروں میں جگہ نہیں رہی اب تو تعلیمی اداروں میں ٹیلی ویژن اسٹوڈیو بن گئے ہیں ۔ ریصیو اسٹیشن کھل گئے ہیں اپنے اخبار اور رسالے نکا ل رہے ہیں اور داخلہ لینے والے نو جوان سنہرے خوابوں میں کھو ئے ہوئے ہیں اور اس دن کے منتظر ہیں جب وہ جیتے جا گتے ٹیلی ویژن پر نمو دار ہوں گے یا کسی بڑے اخبار کی پیشانی پر ان کا نام چھپے گا اور کسی ریڈیو پر ان کی دھو م مچی ہوگی ۔
یہ سب کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نو جوان اس پیشے سے دور رہیں اس میں کیا شک ہے کہ یہ بڑا ہی ایڈ وینچر کا کام ہے ، اس میا4161 ہر روز کے چیلنج کا سامنا کرنے کی اپنی ہی لذت ہے پھر یہ کہ اس میں دولت کو تو جانے ددیجیے لیکن شہرت اور بعض اوقا ت عزت کا جو مزا ہے وہ انجینئرنگ اور ڈاکٹری میں کہاں ؟
آج پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ۔ ایک زما نہ تھا جب تمام ہو نہا ر اور ذہین نو جوان سائنس پڑھا کرتے تھے وہ آگے چل کر انجینئر یا ڈاکٹر بنا کر تے تھے نسبتاً کم ذہیناور ذرا تھو ڑے ہو نہا ر لڑکے لڑکیاںآرٹس کے مضا مین لیا کرتے تھے زندگی کے اگلے مر حلے میں وہ افسر یا ٹیچر بن جا تے تھے یاکوئی اور منا سب جاب حاصل کر لیتے تھے ۔
پھر اچا نک یہ ہوا کہ نقشہ ہی بدلگیا امریکیوں نے آکر بزنس ایڈمنسٹریشن نام کا نیا دوروازہ کھو ل دیا اس کے بعددیکھتے ہی دیکھتے آئی ٹی کا زما نہ آ گیا اور پھر سارے نو جوان کمپیوٹرکے پیچھے ۔ہر ایک کو کمپیوٹر سیکھنے کا جنو ن سوا ر تھا تمام کالجو ں اور یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر سکھا ئے جا نے لگے جگہ جگہکمپیوٹر سینٹر کھل گئے ۔ اور نو جوانوں کے ساتھ ساتھ جا ب والے حضرات بھی کمپیو ٹر سیکھنے لگے کیونکہ ہر ادارے میں کمپیوٹر سسٹم شروع کر دیا گیا تھا ۔
اب جو یہ میڈیا پر یلغا ر ہوئی ہے اور اس پر جو نئی نسل نے ہلہ بو لا ہے اس کا کیاہو گا آگے چل کر ۔ اتنے بہت سے اور لڑکے اور لڑکیاں کہاں سما ئیں گے ان کے خواب بکھر یں گے تو کیا ہو گا اس نسل پر جب ما یو سی ہلہ بولے گی تو کون انہیں تسلی دے گا؟
میڈیا کا پیشہ اییسے غضب کے سہا نے خواب دکھا تا ہے کہ ہر کوئی اس کے فر یب میں آکر اس کی طرف کھینچا چلا جا تا ہے ۔ اسی کشش کی وجہ سے ہما رے زیا دہ تر نو جواں ما سکمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں ایڈمیشن لیتے ہیں ۔اور چا ر سال تک سنہرے خوابوں میں کھو ئے رہتے ہیں کہ ڈگری حاصل کر نے کے بعد میڈیا میں بہت اچھی جا ب لگے گی ۔ اخبار اور ریڈیو کی طرف رجحا ن تھو ڑا کم ہے ۔ زیا دہ تر نو جوانوں کو ٹیلی وژن میں کام کرنے کا شو ق ہے ڈرا موں میں آنے کا، گلو کا ری کرنے کا ،نیوز اینکر بننے کا وغیرہ وغیرہ ہر ایککے الگ الگ خواب ہوتے ہیں سو چتے ہیں میڈیا میں بہت نو کریاں ہیں اتنے سارے چینلز ہیں کہیں نہ کہیں تو جا ب مل ہی جا ئے گی لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ اتنا پڑھنے کے بعد ، ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی جا ب حاصل کر نا کتنا مشکل ہے بے شما ر چینلز ہونے کے با وجو د بھی صرف چند لڑکے اور لڑکیاں جا ب حاصل کر پا تے ہیں کیونکہ جب اتنے چینلزکا م کر رہے ہیں تو ظا ہر سی با ت ہے کہ ان کے پاس کا م کرنے والے بھی مو جو د ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس ڈگری ہے یا نہیں ۔ لیکن کئی سالوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان کے پاس تجر بہ ہو تا ہے ۔
ٹھیک ہے کہ میڈیاجسے ابلا غ عامہ کہا جا تا ہے لو گوں کو بڑا مقا م دیتا ہے وہ اہم ہو جا تے ہیں ان کی آؤ بھگت ہو تی ہے ان کی بات نہ صرف سنی جا تی ہے بلکہ ما نی بھی جا تی ہے ۔ با اثر لو گ انہیں کھڑے ہو کر سلام بھی کرتے ہیں مگر بہت کم جا نتے ہیں کہ کئی اداروں میں لوگوں کو کئی کئی ما ہ سے اجرت نہیں مل رہی ہے کہیں کہیں نو بت فا قوں تک پہنچ گئی ہے وہ دکھیار ے اس امید پر کام کئے جا رہے ہیں کہ ایک نہ ایک روز مل جا ئے گی اور وہ بد نصیب روز نہیں آتا ۔
-----------------
Mehnaz Sabir MA Prev-Article
یہ ہزاروں نو جوان کہاں سمائیں گے ۔
مہناز صابر ایم اے پریویس
یہ ہمارے نو جوانوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ دنیا کے سارے مضمو ن چھو ڑ کر ہر ایک ٹیلیوژن ، اخبار یا ریڈیو میں جا نا چاہتا ہے قریب قریب ہر یونیورسٹی نے یہ مضا مین پڑھا نے شروع کر دیے ہیں ایک زمانے میں انہیں جر نلز م یا صحا فت کہا جا تا تھا پھر میڈیا کہلا یا اور اب ما س کمیونیکیشن کہنے لگے ہیں حال یہ ہے کہ اکثر ادا روں میں اتنے لڑکے اور لڑکیاں داخل ہو گئے ہیں کہ کمروں میں جگہ نہیں رہی اب تو تعلیمی اداروں میں ٹیلی ویژن اسٹوڈیو بن گئے ہیں ۔ ریصیو اسٹیشن کھل گئے ہیں اپنے اخبار اور رسالے نکا ل رہے ہیں اور داخلہ لینے والے نو جوان سنہرے خوابوں میں کھو ئے ہوئے ہیں اور اس دن کے منتظر ہیں جب وہ جیتے جا گتے ٹیلی ویژن پر نمو دار ہوں گے یا کسی بڑے اخبار کی پیشانی پر ان کا نام چھپے گا اور کسی ریڈیو پر ان کی دھو م مچی ہوگی ۔
یہ سب کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نو جوان اس پیشے سے دور رہیں اس میں کیا شک ہے کہ یہ بڑا ہی ایڈ وینچر کا کام ہے ، اس میا4161 ہر روز کے چیلنج کا سامنا کرنے کی اپنی ہی لذت ہے پھر یہ کہ اس میں دولت کو تو جانے ددیجیے لیکن شہرت اور بعض اوقا ت عزت کا جو مزا ہے وہ انجینئرنگ اور ڈاکٹری میں کہاں ؟
آج پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ۔ ایک زما نہ تھا جب تمام ہو نہا ر اور ذہین نو جوان سائنس پڑھا کرتے تھے وہ آگے چل کر انجینئر یا ڈاکٹر بنا کر تے تھے نسبتاً کم ذہیناور ذرا تھو ڑے ہو نہا ر لڑکے لڑکیاںآرٹس کے مضا مین لیا کرتے تھے زندگی کے اگلے مر حلے میں وہ افسر یا ٹیچر بن جا تے تھے یاکوئی اور منا سب جاب حاصل کر لیتے تھے ۔
پھر اچا نک یہ ہوا کہ نقشہ ہی بدلگیا امریکیوں نے آکر بزنس ایڈمنسٹریشن نام کا نیا دوروازہ کھو ل دیا اس کے بعددیکھتے ہی دیکھتے آئی ٹی کا زما نہ آ گیا اور پھر سارے نو جوان کمپیوٹرکے پیچھے ۔ہر ایک کو کمپیوٹر سیکھنے کا جنو ن سوا ر تھا تمام کالجو ں اور یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر سکھا ئے جا نے لگے جگہ جگہکمپیوٹر سینٹر کھل گئے ۔ اور نو جوانوں کے ساتھ ساتھ جا ب والے حضرات بھی کمپیو ٹر سیکھنے لگے کیونکہ ہر ادارے میں کمپیوٹر سسٹم شروع کر دیا گیا تھا ۔
اب جو یہ میڈیا پر یلغا ر ہوئی ہے اور اس پر جو نئی نسل نے ہلہ بو لا ہے اس کا کیاہو گا آگے چل کر ۔ اتنے بہت سے اور لڑکے اور لڑکیاں کہاں سما ئیں گے ان کے خواب بکھر یں گے تو کیا ہو گا اس نسل پر جب ما یو سی ہلہ بولے گی تو کون انہیں تسلی دے گا؟
میڈیا کا پیشہ اییسے غضب کے سہا نے خواب دکھا تا ہے کہ ہر کوئی اس کے فر یب میں آکر اس کی طرف کھینچا چلا جا تا ہے ۔ اسی کشش کی وجہ سے ہما رے زیا دہ تر نو جواں ما سکمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں ایڈمیشن لیتے ہیں ۔اور چا ر سال تک سنہرے خوابوں میں کھو ئے رہتے ہیں کہ ڈگری حاصل کر نے کے بعد میڈیا میں بہت اچھی جا ب لگے گی ۔ اخبار اور ریڈیو کی طرف رجحا ن تھو ڑا کم ہے ۔ زیا دہ تر نو جوانوں کو ٹیلی وژن میں کام کرنے کا شو ق ہے ڈرا موں میں آنے کا، گلو کا ری کرنے کا ،نیوز اینکر بننے کا وغیرہ وغیرہ ہر ایککے الگ الگ خواب ہوتے ہیں سو چتے ہیں میڈیا میں بہت نو کریاں ہیں اتنے سارے چینلز ہیں کہیں نہ کہیں تو جا ب مل ہی جا ئے گی لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ اتنا پڑھنے کے بعد ، ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی جا ب حاصل کر نا کتنا مشکل ہے بے شما ر چینلز ہونے کے با وجو د بھی صرف چند لڑکے اور لڑکیاں جا ب حاصل کر پا تے ہیں کیونکہ جب اتنے چینلزکا م کر رہے ہیں تو ظا ہر سی با ت ہے کہ ان کے پاس کا م کرنے والے بھی مو جو د ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس ڈگری ہے یا نہیں ۔ لیکن کئی سالوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان کے پاس تجر بہ ہو تا ہے ۔
ٹھیک ہے کہ میڈیاجسے ابلا غ عامہ کہا جا تا ہے لو گوں کو بڑا مقا م دیتا ہے وہ اہم ہو جا تے ہیں ان کی آؤ بھگت ہو تی ہے ان کی بات نہ صرف سنی جا تی ہے بلکہ ما نی بھی جا تی ہے ۔ با اثر لو گ انہیں کھڑے ہو کر سلام بھی کرتے ہیں مگر بہت کم جا نتے ہیں کہ کئی اداروں میں لوگوں کو کئی کئی ما ہ سے اجرت نہیں مل رہی ہے کہیں کہیں نو بت فا قوں تک پہنچ گئی ہے وہ دکھیار ے اس امید پر کام کئے جا رہے ہیں کہ ایک نہ ایک روز مل جا ئے گی اور وہ بد نصیب روز نہیں آتا ۔
------- ------- ----- ----- ------ ------
Plz correct these mistakes
For profile, interview and feature pix is must.
In composing u used ے instead of ی
Mehnaz Sabir MA Prev-Article
یہ ہزاروں نو جوان کہاں سمائیں گے ۔
آرٹیکل
مہناز صابر
ےہ ہمارے نو جوانوں کو کےا ہو گےا ہے ؟ دنےا کے سارے مضمو ن چھو ڑ کر ہر اےک ٹےلی وژن ، اخبار ےا رےڈےو مےں جا نا چاہتا ہے قرےب قرےب ہر ےو نےورسٹی نے ےہ مضا مےن پڑھا نے شروع کر دےئے ہےں اےک زمانے مےں انہےں جر نلز م ےا صحا فت کہا جا تا تھا پھر مےڈےا کہلا ےا اور اب ما س کمےو نےکےشن کہنے لگے ہےں حال ےہ ہے کہ اکثر ادا روں مےں اتنے لڑکے اور لڑکےاں داخل ہو گئے ہےں کہ کمروں مےں جگہ نہےں رہی اب تو تعلےمی اداروں مےں ٹےلی وےژن اسٹوڈےو بن گئے ہےں ۔ رےڈےو اسٹےشن کھل گئے ہےں اپنے اخبار اور رسالے نکا ل رہے ہےں اور داخلہ لےنے والے نو جوان سنہرے خوابوں مےں کھو ئے ہوئے ہے اور اس دن کے منتظر ہےں جب وہ جےتے جا گتے ٹےلی و ےژن پر نمو دار ہوں گے ےا کسی بڑے اخبار کی پےشا نی پر ان کا نام چھپے گا اور کسی رےڈےو پر ان کی دھو م مچی ہوگی ۔
ےہ سب کہنے کا مقصد ےہ نہےں ہے کہ نو جوان اس پےشے سے دور رہےں اس مےں کےا شک ہے کہ ےہ بڑا ہی اےڈ وےنچر کا کام ہے ، اس مےں ہر روز کے چےلنج کا سامنا کرنے کی اپنی ہی لذت ہے پھر ےہ کہ اس مےں دولت کو تو جانے دےجئے لےکن شہرت اور بعض اوقا ت عزت کا جو مزا ہے وہ انجےنئر نگ اور ڈاکٹری مےں کہاں ؟
آج پےچھے کی طرف دےکھتے ہےں تو حےرت ہوتی ہے کہ دنےا کےا سے کےا ہو گئی ۔ اےک زما نہ تھا جب تمام ہو نہا ر اور ذہےن نو جوان سائنس پڑھا کرتے تھے وہ آگے چل کر انجےنئر ےا ڈاکٹر بنا کر تے تھے نسبتاً کم ذہےن اور ذرا تھو ڑے ہو نہا ر لڑکے لڑکےا ں آرٹس کے مضا مےن لےا کرتے تھے زندگی کے اگلے مر حلے مےں وہ افسر ےا ٹےچر بن جا تے تھے ےا کوئی اور منا سب جاب حاصل کر لےتے تھے ۔
پھر اچا نک ےہ ہوا کہ نقشہ ہی بدل گےا امر ےکےوں نے آکر بزنس اےد منسٹرےشن نام کا نےا دوروازہ کھو ل دےا اس کے بعد دےکھتے ہی دےکھتے آئی ٹی کا زما نہ آگےا اور پھر سارے نو جوان کمپےو ٹر کے پےچھے ۔ہر اےک کو کمپےو ٹر سےکھنے کا جنو ن سوا ر تھا تمام کالجو ں اور ےونےورسٹےوں مےں کمپےو ٹر سکھا ئے جا نے لگے جگہ جگہ کمپےو ٹر سےنٹر کھل گئے ۔ اور نو جوانوں کے ساتھ ساتھ جا ب والے حضرات بھی کمپےو ٹر سےکھنے لگے کےونکہ ہر ادارے مےں کمپےو ٹر سسٹم شروع کر دےا گےا تھا ۔
اب جو ےہ مےڈےا پر ےلغا ر ہوئی ہے اور اس پر جو نئی نسل نے ہلہ بو لا ہے اس کا کےا ہے گا آگے چل کر ۔ اتنے بہت سے اور لڑکے اور لڑکےاں کہاں سما ئےں گے ان کے خواب بکھر ےں گے تو کےا ہو گا اس نسل پر جب ما ےو سی ہلہ بولے گی تو کون انہےں تسلی دے گا؟
مےڈےا کا پےشہ اےسے غضب کے سہا نے خواب دکھا تا ہے کہ ہر کوئی اس کے فر ےب مےں آکر اس کی طرف کھےنچا چلا جا تا ہے ۔ اسی کشش کی وجہ سے ہما رے زےا دہ تر نو جواں ما س کمپےو نےکےشن ڈےپا رٹمنٹ مےں اےڈمےشن لےتے ہےں اور چا ر سال تک سنہرے خوابوں مےںکھو ئے رہتے ہےں کہ ڈگری حاصل کر نے کے بعد مےڈےا مےں بہت اچھی جا ب لگے گی ۔ اخبار اور رےڈےو کی طرف رجحا ن تھو ڑا کم ہے ۔ زےا دہ تر نو جوانوں کو ٹےلی وژن مےں کام کرنے کا شو ق ہے ڈرا موں مےں آنے کا، گلو کا ری کرنے کا ، نےو ز اےنکر بننے کا وغےرہ وغےرہ ہر اےک کے الگ الگ خواب ہوتے ہےںسو چتے ہےں مےڈےا مےں بہت نو کرےاں ہےں اتنے سارے چےنلز ہےں کہےں نہ کہےں تو جا ب مل ہی جا ئے گی لےکن اس بات سے بے خبر ہےں کہ اتنا پڑھنے کے بعد ، ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی جا ب حاصل کر نا کتنا مشکل ہے بے شما ر چےنلز ہونے کے با وجو د بھی صرف چند لڑکے اور لڑکےاں جا ب حاصل کر پا تے ہےں کےونکہ جب اتنے چےنلز کا م کر رہے ہےں تو ظا ہر سی با ت ہے کہ ان کے پاس کا م کرنے والے بھی مو جو د ہےں ۔ ےہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس ڈگری ہے ےا نہےں ۔ لےکن کئی سالوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان کے پاس تجر بہ ہو تا ہے ۔
ٹھےک ہے کہ مےڈےا جسے ابلا غ عامہ کہا جا تا ہے لو گوں کو بڑا مقا م دےتا ہے وہ اہم ہو جا تے ہےں ان کی آﺅ بھگت ہو تی ہے ان کی بات نہ صرف سنی جا تی ہےں بلکہ ما نی بھی جا تی ہے ۔ با اثر لو گ انہےں کھڑے ہو کر سلام بھی کرتے ہےں مگر بہت کم جا نتے ہےں کہ کئی اداروں مےں لوگوں کو کئی کئی ما ہ سے اجرت نہےں مل رہی ہے کہےں کہےں نو بت فا قوں تک پہنچ گئی ہے وہ دکھےا ر ے اس امےد پر کام کئے جا رہے ہےں کہ اےک نہ اےک روز مل جا ئے گی اور وہ بد نصےب روز نہےں آتا ۔
No comments:
Post a Comment