Monday, 22 August 2016

ہمارا معاشرہ آج کا میڈیا - محمد عمیر

Plz follow outline. It is not according to outline


Muhammad Umair
نام : محمد عمیر
کلاس : ایم اے
رول نمبر : ۴۲
 ہمارا معاشرہ آج کا میڈیا
ارٹیکل
دنیا نے اُنسیویں صدی سے بے پناہ ترقی کی اور اس دور جدیدمیں ریڈیو ، ٹی وی ، اور اخبارات ، کا بڑھتا ہوا سمندر نظر آیا جوانسانی زندگی میں جلد اور اہم تبد یلیاں لانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں مسائل موجود ہیں جو دیکھنے میں تو بہت چھو ٹے نظر آتے ہیں پر ان پر غوروفکر کر نا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہمارے ملک کی زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔پر میڈیا ان کے مسائلوں کو ہائی لائٹ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے ۔ چھو ٹے قصبوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کو میڈیا اتنی کوریج نہیں دیتا ۔جتنا کہ سیا ست اور بڑے شہروں کی خبروں اور ان پر مبنی پروگراموں کو پیش کرنے میں دیتا ہے۔
اسلام آباد ، لاہو ،کراچی ،سے چھو ٹے واقعات کی خبریں فوری طورپر بریکنگ نیوز بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔جبکہ دیہات کے اہم مسئلوں میں سے پینے کا صاف پانی، صحت ، تعلیم ، خوراک ، جیسے بنیادی مسائل اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں جن کا ز کر رسمی طور پر خبروں کاآخری حصہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔صاحب مال لوگ ایسی خبر شا ئع ہونے پر نہ خوش ہوتے ہیں ۔ جن سے ان کی عزت میں کمی آئے اور ان کی ایسی چھوٹی بات کو زیادہ کالم میں شائع کیا جاتاہے تاکہ عزت میں مزید اضافہ ہو سکے۔جبکہ غربت سے مرنے والوں کی آواز صفحات کے آخری حصوں میں نظر آتی ہیں۔
سال میں چندخاص دنوں کے علاوہ آج ہمارے میڈیا پر بہت سے ٹاک شوز، حالات حاضرہ ، ہوں یا کو ئی دلچسی کے پروگرام جن کی زینت صاحب مال اور وی، ائی ، پی ہوتے ہیں ۔ اور دوسری طرف اپنے ملک کی کلچر سازی کرنے کے بجائے دوسروں کے کلچر سازی کا مواد لے کر پاکستانی عوام کو مختلف پروگراموں اور دلچسپ طریقوں سے کھلاتا ہے۔ایسے پروگرام،ڈرامے ہم دیکھ نہیں رہے ہو تے بلکہ دیکھائے جاتے ہیں ۔آج ہمار ا میڈیا خبروں کو بریکنگ نیوز بنا کر فوری طور پر پیش کرنے میں سر گرم ہے۔ کیاایسا کرنے سے لوگوں کے مسائل حل اور امن قائم ہو سکتا ہے اگر ہاں تو ایسا اب تک کیوں نہیں ہو سکا ؟
اس ملک کے عوام غربت ، فاقہ کشی کا شکار ہو کرجسم وجاں کا رشتہ قائم رکھنے سے بھی قاصر ہوتے جا رہے ہیں ۔اور میڈیا پر ہر ہر منٹ بعد جس طرح سے سامراجی برانڈکی پراڈکٹ بیچنے کے لئے زہن سازی کا عمل جاری ہے ۔جو مضر صحت ،مشروبات و دیگر ملاوٹ زدہ اشیاء کے نقصانات کو فوائد میں گنوانے کے لیے مصروف ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں جو دیکھایا جارہا ہے اس کا اثر ہم پر نہ پڑا ہوآج ہمارے گھروں میں پکوان سے لے کر باتھ سوپ تک ہر وہ چیز استعمال ہوتی ہے جس کی زہن سازی ٹی وی پر کی جاتی ہے ۔ (۲)
سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ ! ! یہ بات معلوم ہو نے کے باوجود کہ کسی بھی چیز کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے پہلے اس کی بنیاد وں کو مضبوط بنایا جائے۔آج ہمارا میڈیا حقیقی معنوں میںآزادی کا مقصد کلچر ، ثقافت ، رنگونسل ، کو یکساں حقوق اور معاشرے میں امن بھائی چارے کی فزاکو قائم کرنے کی خاص کو شش کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ۔ جبکہ میڈیا کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت یہ بتا رہا ہے کہ ہماری علمیت ، تربیت ، اور زندگیوں کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی کمی ضروررہ گئی ہے جس سے یہ صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے کہ نسلی لسانی طور پر آپس میں نفرتے جنم لینے لگی ہیں جوکہ کسی بھی ملک کی جانی ، مالی ، معاشی ، اقتصادی ، اور تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔
نسلی لسانی کی بنا پر نفرتوں کی مثالے ہم گلی محلوں سے با آسانی لے سکتے ہیں ۔ ہمارے میڈیا کو ایسی نفرتوں کو ختم کرنے ملک سے محبت کرنے کا جذبہ اور قومیت ، تہذیب ، و ثقافت ، پرستی میں غیر ضروری مرض کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چا ہیے جس میں ملک و قوم کو ایک کرنے کے لیے یکطرفہ اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گاتاکہ ایک عام آدمی کے دل میں میڈیا کے لیے اچھی سوچ پیدا ہو سکے۔حکومت ، عدلیہ ، انتطامیہ ، کے بعد صحافت کا چوتھا درجہ آتا ہے جس کا مقصد عوالناس کو سچ اور حقائق کے ساتھ روزانہ کی بنیاد و ں پر مواد پیش کرنا ہے جو کہ اپنی ایمانداری اور سچائی سے نا صرف اپنا بلکہ ملک و قوم میں ایک دوسرے کے دلوں میں محبت پیدا کرنے میں بھر پورکردار ادا کر سکتا ہے۔معاف کی جیئے اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والی نسلوں کے لیے بہت سارے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment