حور خان
رول نمبر: ۷۲
ایم۔اے (پریوئس)
ماس میڈیا دیپارٹمنٹ
آرٹیکل
سو شل میڈیااْمید کی کِرن
سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِرائے تبادلہ خیال تصویر اور ویڈیو شئیر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی مقبو لیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔کئی مرتبہ نیوز چینلز بھی وہ معلومات ہم تک نہیں پہنچاتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ جا تی ہے جیسے کہ کشمیر اور برما کے حالات و واقعات ،قرآن و حدیث کی شئیرنگ اور عقیدے کی درستگی کا کام بھی کیا جا سکتا ہے۔تعلیم،تفریح اور معا شرے کو متحرک بنانے کے ساتھ ساتھ مشکل میں مدد کے امکان کا بھی سبب ہے سو شل میڈیا کی ایجاد اور اسکی طوفانی رفتارسے یہ بات واضع ہوگئی کہ دنیا اب گول نہیں رہی بلکہ چپٹی ہو گئی ہے۔ملکون اور براعظموں کے درمیان فاصلے برقرار نہیں رہے امریکی اسٹوروں پے بکنے والا سامان چین میں بنا یا جا رہا ہے شکاگو میں بیٹھ کے جہاز کی سیٹ کنفرم کر نے کے لئے آپ فون ملاتے ہیں تو جواب بھارت کے کسی شہر میں بنائے گئے کال سینٹر سے دیا جاتا ہے۔مختلف ویب سائیٹس آن لائن شا پنگ کے لئے بنائی گئیں جن میں سب سے ذیادہ مقبولیت دراز آن لائن شاپنگ ویب کو حاصل ہوئی جس کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ہر طرح کے آئٹمز تک رسائی حصل کر سکتے ہیں۔گھر گہرستی ہو یا تعلیم،دینی مسعلے ہوں یا دنیاوی، بزنس ہو یا نوکری ہر عنوان پے سوشل میڈیا کا بہترین کردار ہے کسی انسان کی خاصیتوں کو دنیا کے روبرو کرنااور شہرت کا حامل بننا بھی سوشل میڈیا ہی کی عنایت ہے
یہ میڈیا ہی کا فیض ہے کہ پاکستان کی کم و بیش ۵۹ فیصد خواتین اور لگ بھگ ایک سو پچانوے مرد بفضل تعالٰی شاعر،ادیب،دانشور اور خصوصاً کالم نویس ہیں یہ میڈیا ہی کا احسان ہے کہ یس نے ہر خاصو عام کو کالم نویس بنا ڈالا۔آج میں تقریباً ستانوے فیسد افراد انٹر نیٹ سے آشنا ہیں یا باقاعدہ طور سے اسکا استعمال کر تے ہیں اس ٹیکنالوجی کو روز بروز جدید بنایا جا رہا ہے دنوں میں ہی نہیں بلکہ گھنٹوں میں ہر ایپلیکیشن میں کو ئی نہ کو ئی اپ ڈیٹ ملتی ہے یا ایکسپلورائزیشن ہو تی ہے۔ مختلف جگا ہوں پے سروے کرنے کے بعد یہ نتیجہ آیا ہے کہ یس دور کے نوجوان ہی نہیں بلکہ ٹینیجرز بھی نت نئے انداز کی ایپلیکیشنز استعمال کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح کا ہاٹ ٹاپک ہویا کوئی ضروری معلومات ہو اب کوئی بھی خبر صرف گھر کے بڑون تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ گھر کے بچّے بھی ہر خبر سے آشنا ہو تے ہیں اور یہ ایک پازیٹو سا ئین ہے۔ کیونکہ بچّوں میں خود اعتمادی بڑھ گئی ہے انکو بوقت معلومات ملتی رہتی ہیں کسی بھی طرح کے ڈسکشن میں بچّے بخوبی اپنی رائے پیش کرنے لگے ہیں اور یہ سب سو شل میڈیا کے بدولت ہے کہ آج کے بچّے ہر طرح کے حالات سے خود اوئیر ہو جاتے ہیں مختلف علاقوں اور شہروں میں بچّے اغوا ہونے کی جو صورتحال ہے یہ ابھی کا سب سے کر نٹ اِشو ہے میڈیا نے اس حوالے سے اتنا اپ ڈیٹ کر دیا ہے کہ بچّے خبردار ہو چکے ہیں اور بلا ضرورت گھروں سے نکلنا چھو ڑ چکے ہیں تو یہ ہے سو شل میڈیا کے ایکشن کا ری ایکشن کہ اب ایک بچّہ بھی سیلف ڈیفنس امپلیمینٹ کر رہا ہے۔
اسی طرح ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے بھی اپنے کام کا تقریباً بو جھ سو شل میڈیا اور ٹیکنا لو جی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ایڈمیشنز آن لائن ہونے لگے ہیں رزلٹس آن لائن اناوْنس کر دئیے جا تے ہیں تمام طالبِعلموں کا بائیو ڈیٹا اور اکیڈمک کوالیفکیشن کا ریکارڈ اب کمپیوٹر میں سیف کیا جا تا ہے یہان تک کہ اسائنمنٹس کی سبمشن بھی آن لائن کی جانے لگی ہیں یو نیورسٹیز اور کا لجوں میں۔اب گیا وہ زمانہ جہاں طالبِ علم اپنے اسائنمنٹس پیپر فائل پے بنا کے اپنے اسا تذہ کو دیا کرتے تھے اب زمانے نے اپنا رخ بدل ڈالا اب ہر طالبِ علم کو( ایمیل اکاوئنٹ) درکار ہے جس کے ذریعے وہ اسائنمینٹس یا پروجیکٹس اپنے اساتذہ کو میل کرتے ہیں اور اساتذہ انکا رسپونس اسٹوڈنٹ بلاگ کے ذریعے دیتے ہیں۔سوشل میڈیا نے حلات بدل ڈالے طور طریقے بدل ڈالے ہر چیز کو مزید آسان سے آسان تر بنا ڈالا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا اْمید کی ایک کِرن ہے سوشل میڈیا نے مختلف پہلووں سے انسان کو فائدے پہنچائے ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ اسی طرح مقبولیت کے ساتھ جاری رہے گا اچھّی اْمیدوں اور کاوشوں کے ساتھ۔
رول نمبر: ۷۲
ایم۔اے (پریوئس)
ماس میڈیا دیپارٹمنٹ
آرٹیکل
سو شل میڈیااْمید کی کِرن
سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِرائے تبادلہ خیال تصویر اور ویڈیو شئیر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی مقبو لیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔کئی مرتبہ نیوز چینلز بھی وہ معلومات ہم تک نہیں پہنچاتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ جا تی ہے جیسے کہ کشمیر اور برما کے حالات و واقعات ،قرآن و حدیث کی شئیرنگ اور عقیدے کی درستگی کا کام بھی کیا جا سکتا ہے۔تعلیم،تفریح اور معا شرے کو متحرک بنانے کے ساتھ ساتھ مشکل میں مدد کے امکان کا بھی سبب ہے سو شل میڈیا کی ایجاد اور اسکی طوفانی رفتارسے یہ بات واضع ہوگئی کہ دنیا اب گول نہیں رہی بلکہ چپٹی ہو گئی ہے۔ملکون اور براعظموں کے درمیان فاصلے برقرار نہیں رہے امریکی اسٹوروں پے بکنے والا سامان چین میں بنا یا جا رہا ہے شکاگو میں بیٹھ کے جہاز کی سیٹ کنفرم کر نے کے لئے آپ فون ملاتے ہیں تو جواب بھارت کے کسی شہر میں بنائے گئے کال سینٹر سے دیا جاتا ہے۔مختلف ویب سائیٹس آن لائن شا پنگ کے لئے بنائی گئیں جن میں سب سے ذیادہ مقبولیت دراز آن لائن شاپنگ ویب کو حاصل ہوئی جس کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ہر طرح کے آئٹمز تک رسائی حصل کر سکتے ہیں۔گھر گہرستی ہو یا تعلیم،دینی مسعلے ہوں یا دنیاوی، بزنس ہو یا نوکری ہر عنوان پے سوشل میڈیا کا بہترین کردار ہے کسی انسان کی خاصیتوں کو دنیا کے روبرو کرنااور شہرت کا حامل بننا بھی سوشل میڈیا ہی کی عنایت ہے
یہ میڈیا ہی کا فیض ہے کہ پاکستان کی کم و بیش ۵۹ فیصد خواتین اور لگ بھگ ایک سو پچانوے مرد بفضل تعالٰی شاعر،ادیب،دانشور اور خصوصاً کالم نویس ہیں یہ میڈیا ہی کا احسان ہے کہ یس نے ہر خاصو عام کو کالم نویس بنا ڈالا۔آج میں تقریباً ستانوے فیسد افراد انٹر نیٹ سے آشنا ہیں یا باقاعدہ طور سے اسکا استعمال کر تے ہیں اس ٹیکنالوجی کو روز بروز جدید بنایا جا رہا ہے دنوں میں ہی نہیں بلکہ گھنٹوں میں ہر ایپلیکیشن میں کو ئی نہ کو ئی اپ ڈیٹ ملتی ہے یا ایکسپلورائزیشن ہو تی ہے۔ مختلف جگا ہوں پے سروے کرنے کے بعد یہ نتیجہ آیا ہے کہ یس دور کے نوجوان ہی نہیں بلکہ ٹینیجرز بھی نت نئے انداز کی ایپلیکیشنز استعمال کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح کا ہاٹ ٹاپک ہویا کوئی ضروری معلومات ہو اب کوئی بھی خبر صرف گھر کے بڑون تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ گھر کے بچّے بھی ہر خبر سے آشنا ہو تے ہیں اور یہ ایک پازیٹو سا ئین ہے۔ کیونکہ بچّوں میں خود اعتمادی بڑھ گئی ہے انکو بوقت معلومات ملتی رہتی ہیں کسی بھی طرح کے ڈسکشن میں بچّے بخوبی اپنی رائے پیش کرنے لگے ہیں اور یہ سب سو شل میڈیا کے بدولت ہے کہ آج کے بچّے ہر طرح کے حالات سے خود اوئیر ہو جاتے ہیں مختلف علاقوں اور شہروں میں بچّے اغوا ہونے کی جو صورتحال ہے یہ ابھی کا سب سے کر نٹ اِشو ہے میڈیا نے اس حوالے سے اتنا اپ ڈیٹ کر دیا ہے کہ بچّے خبردار ہو چکے ہیں اور بلا ضرورت گھروں سے نکلنا چھو ڑ چکے ہیں تو یہ ہے سو شل میڈیا کے ایکشن کا ری ایکشن کہ اب ایک بچّہ بھی سیلف ڈیفنس امپلیمینٹ کر رہا ہے۔
اسی طرح ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے بھی اپنے کام کا تقریباً بو جھ سو شل میڈیا اور ٹیکنا لو جی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ایڈمیشنز آن لائن ہونے لگے ہیں رزلٹس آن لائن اناوْنس کر دئیے جا تے ہیں تمام طالبِعلموں کا بائیو ڈیٹا اور اکیڈمک کوالیفکیشن کا ریکارڈ اب کمپیوٹر میں سیف کیا جا تا ہے یہان تک کہ اسائنمنٹس کی سبمشن بھی آن لائن کی جانے لگی ہیں یو نیورسٹیز اور کا لجوں میں۔اب گیا وہ زمانہ جہاں طالبِ علم اپنے اسائنمنٹس پیپر فائل پے بنا کے اپنے اسا تذہ کو دیا کرتے تھے اب زمانے نے اپنا رخ بدل ڈالا اب ہر طالبِ علم کو( ایمیل اکاوئنٹ) درکار ہے جس کے ذریعے وہ اسائنمینٹس یا پروجیکٹس اپنے اساتذہ کو میل کرتے ہیں اور اساتذہ انکا رسپونس اسٹوڈنٹ بلاگ کے ذریعے دیتے ہیں۔سوشل میڈیا نے حلات بدل ڈالے طور طریقے بدل ڈالے ہر چیز کو مزید آسان سے آسان تر بنا ڈالا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا اْمید کی ایک کِرن ہے سوشل میڈیا نے مختلف پہلووں سے انسان کو فائدے پہنچائے ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ اسی طرح مقبولیت کے ساتھ جاری رہے گا اچھّی اْمیدوں اور کاوشوں کے ساتھ۔
No comments:
Post a Comment