Wednesday 10 August 2016

سنگار علی موسیقار - پروفائل : محمد عمیر

pic???
Corrected
پروفا ئل ( ۱ ) 
محمد عمیر ایم اے 
رول نمبر ۴۲ سنگار علی موسیقار 

چھوٹے لوگوں میں بھی بڑافن موجود ہوتا ہے ہمارے ملک پاکستان میں موسیقی کی دنیا میں بڑے بڑے نام موجود ہیں جوکہ نا صرف علاقائی بلکہ ملکی سطح پراپنا اور اپنے ملک پاکستان کا نام روشن کرتے آئے ہیں۔سنگارعلی مو سیقی کی دنیا میں اپنا نام اور لوگوں کے درمیا ن محبتے باٹنے کا نیا عذم لیے ۱۹۷۶ ء کوبلوچستان کے ضلع لھڑی میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام نواب خان ہے۔ ابتدائی تعلیم ضلع لھڑی کے گورنمنٹ اسکول سے حاصل کی۔بچپن میں اپنی علاقائی موسیقی سن کر متاثر ہوئے اور موسیقی سیکھنے میں اپنی پوری دلچسپی زاہر کی تعلیم کے میدان میں ان کی تعلیم مڈل کلاس تک ہے۔
انہوں کا تعلق رندبلوچ برادری سے ہے ان کے والدایک چھوٹے زمیندارہیں ۱۹۹۰ ء سے موسیقی سیکھنے کے لیے ماہر موسیقاراستاد الطاف حسین منگراڈکی خدمات حاصل کی اورموسیقی سیکھنے کا آغاز کیا جس کی خاطرروزتین کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ان کے استاد الطاف حسین منگراڑ ضلع لھڑی میں بلوچی زبان کے بہترین موسیقار کے نام سے اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں جو کہ بلوچی زبان کے بڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ اپنے فن کا جادو جگا چکے ہیں ۔
سنگار علی کے ساتھ مزید پانچ شاگرد موسیقی سیکھنے آتے تھے پر وہ وقت کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکے مگر مو سیقی کی دنیا میں اپنی منزل پانے اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کرنے کے نئے خوابوں نے سنگار علی کو آخرایک موسیقار بنا دیا۔اور ۱۹۹۷ ء کو ضلع لھڑی سے اپنی مو سیقی کے فن کا با قاعدہ آغاز شروع کرا ۔اپنے صوبے کے ادبی ثقافتی کلچر کے مختلف پروگراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں ۔ 
انھیں ڈھولک نوازی پر خاص مہارت حاصل ہے سندھ بلوچستان کے اب تک سو ۱۰۰ سے زائد میلوں اور کلچرل پروگراموں میں بطور میوزیشن کے رنگ بکھیرتے آئے ہیں۔سندھی بلوچی زبان میں شاعری بھی لکھی اور اسے اپنے سروں میں سما کراپنی شاعری سے لوگوں میں محبت اور پیار کے جنون کو بڑھانے کی اب تک کوشش جاری ہے ۔ ۲۰۱۰ ء میں شد ید بارشوں کی وجہ سے سنگارعلی کی فصل تباہ ہو گی اور مشکل حالات میں وہ بلوچستان سے تجارت کر کے حیدرآبادسندھ آگے۔ان کی شخصیت میں سادگی اور لوگوں سے کردار نہایت ہی خشگوار رہا ہے شلوار قمیض ان کا پسندیدہ لباس ہے۔موسیقی ایک ایسی ندی کی طرح ہے جس کا رہنما لازمی ہے اس وقت سنگارعلی کی رہنمائی میں چارشاگرد ، جمال بھٹی، رجب چانڈیو ، ہاشم، اور محبوب علی چانڈیو، ہیں۔جن کا کہنا ہے استاد نے اپنے اس فن سے لوگوں میں اپنی پہچان بنائی اور ہمیں ایک دوستی 
جیسے ماحول میں استاد اپنی صلاحیتوں سے ہمکنارکر رہے ہیں۔ 
عطااللہ خان نیازی جن کو موسیقی کی دنیا میں اہم مقام حاصل ہے وہ بھی ایک ٹرک ڑرائیور تھے ۔بد قسمتی سے سنگارعلی موسیقی میں بڑا مقام حاصل نہ کر سکے وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ٹرک بھی چلاتے ہیں صبح سویرے جب گنگناتے ہوئے اپنے سفر پر نکلتے ہیں تو ان 
( ۲)
کے چہرے پر خشی کا سماع ہوتا ہے ۔ اور یوں ٹرک کے باقی سا تھی بھی ان کی آوازسے لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ سفر کو چار چاند اور تفریح کے ساتھ اپنے سفر کو مکمل کرتے ہیں۔
سنگار علی بہترین اور حقیقی موسیقار ہیں انھوں نے کہا آج کے نوجوان ایسی موسیقی سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ۔بلوچی زبان کی صوفیانہ شاعری کے علاوہ شاہ عبداللطیف بھٹائی،سچل سرمست،کی شاعری کو بھی اپنے سرُوں میں سجاتے ہیں اور اور انھوں نے اپنے اس فن کو اب تک حیدرآباد میں بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔ان کی موسیقی سن کر آس پاس کے لوگ کافی خوش ہوتے ہیں ۔سنگار علی واحد وہ شخص ہیں جو اپنے خاندان میں موسیقی کی طرف آئے جس کو حاصل کرنے کے لیے دل لگا کر محنت کی اپنے اس شوق اور خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ا وراس فن سے کافی خوش ہیں انہیں اردو گیتوں سے بھی کافی دلچسپی ہے ۔
شاید ہم ایسے فنکاروں سے مکمل فائدہ حاصل کرنے میں نا کام رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے فنکار دوسرے ملکوں میں اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں اور انھیں اس فن کی بدولت خاص مقام حا صل ہے ۔ہمیں ایسے لوگوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا لازمی ہے ۔جواپنی آوازوں سے پیار محبت کے سرُسجا کر ہماری ہزاروں پریشانیوں کودورکر تے ہیں اور پیغام خاص دتے ہیں۔


------    --------             ----------      -------           ---------     ------  ------  ---------       ---------  ---------
پروفائل     
محمد عمیر ایم اے
          
رول نمبر ۲۴           سنگار علی موسیقار 

  چھوٹے لوگوں میں بھی بڑافن موجود ہوتا ہے ہمارے ملک پاکستان میں موسیقی کی دنیا میں بڑے بڑے نام موجود ہیں جوکہ نا صرف علاقائی بلکہ ملکی سطح پراپنا اور اپنے ملک پاکستان کا نام روشن کرتے آئے ہیں۔سنگارعلی مو سیقی کی دنیا میں اپنا نام اور لوگوںکے درمیا ن محبتے باٹنے کا نیا عذم لیے ۶۷۹۱ ءکوبلوچستان کے ضلع لھڑی میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام نواب خان ہے۔ ابتدائی تعلیم ضلع لھڑی کے گورنمنٹ اسکول سے حاصل کی۔بچپن میںاپنی علاقائی موسیقی سن کر متاثر ہوئے اور موسیقی سیکھنے میں اپنی پوری دلچسپی زاہر کی تعلیم کے میدان میں ان کی تعلیم مڈل کلاس تک ہے۔
انہوں کا تعلق رندبلوچ برادری سے ہے ان کے والدایک چھوٹے زمیندارہیں ۰۹۹۱ ءسے موسیقی سیکھنے کے لیے ماہر موسیقاراستاد الطاف حسین منگراڈکی خدمات حاصل کی اورموسیقی سیکھنے کا آغاز کیا جس کی خاطرروزتین کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ان کے استاد الطاف حسین منگراڑ ضلع لھڑی میں بلوچی زبان کے بہترین موسیقار کے نام سے اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں جو کہ بلوچی زبان کے بڑے بڑے فنکاروںکے ساتھ اپنے فن کا جادو جگا چکے ہیں ۔
سنگار علی کے ساتھ مزید پانچ شاگرد موسیقی سیکھنے آتے تھے پر وہ وقت کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکے مگر مو سیقی کی دنیا میں اپنی منزل پانے اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کرنے کے نئے خوابوں نے سنگار علی کو آخرایک موسیقار بنا دیا۔اور ۷۹۹۱ ءکو ضلع لھڑی سے اپنی مو سیقی کے فن کا با قاعدہ آغاز شروع کرا ۔اپنے صوبے کے ادبی ثقافتی کلچر کے مختلف پروگراموں میںاپنے فن کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں ۔ 
انھیںڈھولک نوازی پر خاص مہارت حاصل ہے سندھ بلوچستان کے اب تک سو ۰۰۱ سے زائد میلوں اور کلچرل پروگراموں میں بطور میوزیشن کے رنگ بکھیرتے آئے ہیں۔سندھی بلوچی زبان میںشاعری بھی لکھی اور اسے اپنے سروں میں سما کراپنی شاعری سے لوگوں میںمحبت اور پیار کے جنون کو بڑھانے کی اب تک کوشش جاری ہے ۔ ۰۱۰۲ ء میں شد ید بارشوں کی وجہ سے سنگارعلی کی فصل تباہ ہو گی اور مشکل حالات میں وہ بلوچستان سے تجارت کر کے حیدرآبادسندھ آگے۔ان کی شخصیت میں سادگی اور لوگوں سے کردار نہایت ہی خشگوار رہا ہے شلوار قمیض ان کا پسندیدہ لباس ہے۔موسیقی ایک ایسی ندی کی طرح ہے جس کا رہنما لازمی ہے اس وقت سنگارعلی کی رہنمائی میں چارشاگرد ، جمال بھٹی، رجب چانڈیو ، ہاشم، اور محبوب علی چانڈیو، ہیں۔جن کا کہنا ہے استاد نے اپنے اس فن سے لوگوں میں اپنی پہچان بنائی اور ہمیں ایک دوستی  
جیسے ماحول میں استاد اپنی صلاحیتوں سے ہمکنارکر رہے ہیں۔ 
عطااللہ خان نیازی جن کو موسیقی کی دنیا میں اہم مقام حاصل ہے وہ بھی ایک ٹرک ڑرائیور تھے ۔بد قسمتی سے سنگارعلی موسیقی میں بڑا مقام حاصل نہ کر سکے وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ٹرک بھی چلاتے ہیں صبح سویرے جب گنگناتے ہوئے اپنے سفر پر نکلتے ہیںتو ان   
              ( ۲)
کے چہرے پر خشی کا سماع ہوتا ہے ۔ اور یوںٹرک کے باقی سا تھی بھی ان کی آوازسے لطف اندوز ہوتے ہیںجو کہ سفر کو چار چاند اور تفریح کے ساتھ اپنے سفر کو مکمل کرتے ہیں۔
 سنگار علی بہترین اور حقیقی موسیقار ہیں انھوں نے کہا آج کے نوجوان ایسی موسیقی سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ۔بلوچی زبان کی صوفیانہ شاعری کے علاوہ شاہ عبداللطیف بھٹائی،سچل سرمست،کی شاعری کو بھی اپنے سرُوںمیں سجاتے ہیںاور اور انھوں نے اپنے اس فن کو اب تک حیدرآباد میں بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔ان کی موسیقی سن کر آس پاس کے لوگ کافی خوش ہوتے ہیں ۔سنگار علی واحد وہ شخص ہیں جو اپنے خاندان میں موسیقی کی طرف آئے جس کو حاصل کرنے کے لیے دل لگا کر محنت کی اپنے اس شوق اور خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ا وراس فن سے کافی خوش ہیں انہیں اردو گیتوں سے بھی کافی دلچسپی ہے ۔
شاید ہم ایسے فنکاروں سے مکمل فائدہ حاصل کرنے میں نا کام رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے فنکار دوسرے ملکوں میں اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں اور انھیںاس فن کی بدولت خاص مقام حا صل ہے ۔ہمیںایسے لوگوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا لازمی ہے ۔جواپنی آوازوں سے پیار محبت کے سرُسجا کر ہماری ہزاروںپریشانیوں کودورکر تے ہیںاور پیغام خاص دتے ہیں۔
  

No comments:

Post a Comment