Wednesday 10 August 2016

فاسٹ فوڈ کے شوقین حیدرآبادی 0 رحما تالپر

corrected
فاسٹ فوڈ کے شوقین حیدرآبادی
رحما تالپر
رول نمبر:50
ایم ۔اے پیریویس

پہلی دنیا ہو یا تیسری دنیا۔جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں ان میں سے بیشترنے کم ازکم ایک دفعہ تو برگر،فرائڈچکن اور پیزا تو کھایا ہی ہوگا۔جن لوگوں کو مذکورہ کھانا مہنگا لگتا ہے،انہوں نے اس کے متبادل کے طور پر بند کباب تو یقیناًخریدا ہوگا۔اور یہ اس طرح کے پکوان فاسٹ فوڈ کے زمرے میں آتے ہیں۔فاسٹ فود کی خوبی یہ ہے کہ آسانی سے دستیاب ہے،مزیدار ہے،فوری طور کھایا جا سکتا ہے اور آپ ایک پیکیٹ یا بیگ میں رکھ کر جہاں چاہیں لے جا سکتے ہیں ۔ان خوبیوں کی بنیاد پر اسکی لت بڑی آسانی سے لگ سکتی ہے،بالخصوص بچوں کو۔اسی لیے ہر سال میں اربوں ڈالر میں فاسٹ فوڈ فروخت کیاجاتا ہے۔
لیکن اگر بات کی جا ئے ٹھنڈی فضاوءں کے شہر حیدرآباد کی بات کی تو یہاں کے منچلے کوئی بھی تفریح کا موقع جانے نہیں دیتے۔حیدرآباد کے لوگ مختلف چیزوں کے شوقین ہیں جیسے کے فاسٹ فوڈ جس کا رحجان بڑھتا جارہا ہے جہاں بات آتی ہے کھانے پینے کی تو حیدرآباد کی عوام اس میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ایک وقت تھا جب حیدرآباد میں کھانے پینے کی تو چند ہوٹلز اور ڈھابے ہوا کرتے تھے جہاں صرف دیسی کھانا ہی ملتا تھا کچھ روز پہلے یہاں فاسٹ فوڈ اور چائینز ڈشز کا کوئی رحجان نہ تھا تو یہاں کے لوگ ان سے بھی واقف نہ تھے پھر کچھ وقت بعد کافی جگہوں پر ہوٹلز کھولے گئے جیسے کے لطیف آباد ،قاسم آباد،صدر،ڈفینس،آٹو بھان وغیرہ۔جہاں ہر طبقے کے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ اور دوستوں یاروں کے ساتھ زندگی کے کچھ حسین پل گزارنے آتے ہیں اور نئے نئے ذائقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ویسے تو حیدرآباد میں بہت ساری چیزیں مشہور ہیں لیکن ان جگہوں کی رونقیں کچھ اور ہیں اگر ہائے کلاس کے لوگوں کے لیے ریسٹورینٹ موجود ہیں تو ویسے ہی مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے بھی ہیں لطیف آباد 7 نمبر میں الفجر،انارکلی سینٹر۔لطیف آباد 8 نمبر میں کراچی بروسٹ ،سنوپی۔آٹوبھان روڈ پر پیزا 20،پی۔کے،آکسیجن،رائل تاج،لاموش ،ک۔ایف۔سی،مک ڈانلس ۔قاسم آباد میں پیزاہٹ ،سارنگ کیفے،بروسٹ لنک،انڈس کیفے وغیرہ بھی اپنی رونق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
پہلے زمانے میں بڑے بڑے گھر ہوتے تھے اس لیے گھر میں جتنے بھی مہمان آتے تھے تو کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی گھر کے سب افراد مل جل کر کام کرتے تھے آج کل گھر سے باہر کھانا کھانے یا کسی کی دعوت میں باہر کھانا کھانے کا رواج اس لیے بڑھ گیا ہے کہ آج کل گھر بلکل چھوٹے ہیں آبادی بڑھ گئی ہے جوائنڈ فیملی سسٹم تقریباً ختم ہوگیا ہے ۔اب اگر کسی کی دعوت گھر میں کرتے ہیں تو گھر کی مالکہ مہمانوں کے ساتھ بیٹھے یا خود کچن سنبھالے اس لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ مہمانوں کو کسی ہوٹل یا ریسٹورینٹ میں لے کر جائیں سب مل جل کر دعوت کا لطف اٹھائیں اور گیدرنگ بھی ہوجائے ا۔ آج کل مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں مثلاً لوڈشیڈنگ کو لے کر دن میں آٹھ سے دس گھنٹے بھی لائٹ موجود نہیں کبھی پانی نہیں ہے اس لیے لوگ اپنی پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے چھوٹی بڑی تقریبات باہر ہوٹلوں میں کرنا پسند کرتے ہیں مثلاًسالگرہ ،شادی ،چھوٹی بڑی دعوت وغیرہ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی وجہ سے تیں چار گھنٹے گھر کی پریشانیوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔آج کل لوگ آفس کی میٹنگ بھی ہوٹلوں میں کرنا پسند کرتے ہیں میٹنگ بھی ہوجاتی ہے ساتھ میں اچھا کھانا بھی کھانے کو مل جاتا ہے۔جتنا انسان کو ماحول اچھا اور پرسکون ملے گا اتنا ہی دماغ بھی اچھا کام کرے گا۔اور جو ہماری کام چور عورتیں ہوتی ہیں وہ گرمی کی وجہ سے زیادہ تر باہر سے کھانا منگواتی ہیں ایسے ہی کچھ ہماری نوجوان نسل کو بھی گھر کے کھانے سے زیادہ باہر کا فاسٹ فوڈ کھانا اتنا پسندکرتے ہیں کہ ان کا بس چلے تو تینوں وقت کاکھانا باہر سے کھائیں۔
الفجر ریسٹورینٹ پر موجود لوگوں سے ملاقات کی تو وہاں انہوں نے بتایا کہ یہاں کے رولز،بروسٹ برگراور کلب سینڈوچز بہت لزیز اور مزیدار ہیں جو کہ عام ریسٹورینٹ میں ایسا زئقہ دوسرے جگہ نہیں ملتا یہ ریٹس بھی مناسب ہیں اور یہاں مڈل اور امیر طبقہ شوقیہ آتا ہے۔ایسے ہی رائیل تاج ریٹورینٹ کے سیل مینیجر سے پوچھا آپ کی کتنی سیل ہوتی ہے؟،کتنے کلائنڈ آتے ہیں اور کتنی کمائی ہوتی ہے؟ تو انھون نے بتایا ایک لاکھ یا کبھی اس سے بھی اوپر ہوجاتی ہے،سیل 5,6 لاکھ اور کلائنڈس
2 ہزار کے قریب یا کبھی کسی دن کم بھی ہوتے ہیں وہاں موجود عاصم کی فیملی سے پوچھا آپ کا یہاں آنے کا ایکسپرینس کیسا رہا تو انھوں نے بتایا کہ ہم یہاں ہفتے میں 2,3بار ضرورآتے ہیںیہاں کا کھانا بہت پسند ہے اور ماحول پرسکون ہے۔ایسے ہی کے۔ایف ۔سی میں فیملی سے بات چیت ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہر الٹر نیٹ ڈے پر اپنی فیملی کے ساتھ لنچ اور ڈنر کرنے آتے ہیں بچے بھی خوش ہوتے ہیں ان کے لیے پلے ایریا بھی ہے ساتھ ہی ان کو چکی میل میں کھلونے بھی دستیاب کرتے ہیں جس سے بچے بہت خوش ہوجاتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ کا مزاج بھی لوگوں میں فیشن کی طرح بڑھ رہا ہے آئے دنوں سینکڑوں لوگ ریوسٹورینٹ کی طرف رجوع کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فاسٹ فوڈ کا رحجان روکنے سے بھی نہیں رکتا مڈل کلاس فیملی سے لے کر ھائی کلاس فیملی تک سارے فاسٹ فوڈ کے بغیر رہنے کو اذیت سمجھتے ہیں۔یہ دل کش رحجان اکژ ھائے کلاس فیملی میں پایا جاتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ فاسٹ فوڈ فیملی نے بڑھاوا دیا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ غریب غربوں کے کام اور کام سے بڑھ کر ہے فاسٹ فوڈ،وہ بیچارے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کل سے پھر ان کو دو وقت کی روٹی کمانے کی پریشانی سائے کی طرح پریشان کر رہی ہوتی ہے۔اس میں کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔غریبوں کا تعلق فاسٹ فوڈ سے دور دور تک نہیں ۔فاسٹ فوڈ اور غریبوں کا جیسا 36کاآکڑ۱ اسی لیے لگاتا ہے کہ غریبوں نے فاسٹ فوڈ سے علیحدگی کرلی ہے اگر دیکھا جائے تو مڈل کلاس فیملی اور ھائی کلاس کے علاوہ دوستوں کے بھیٹ چڑھا جاتا ہے۔ 
حیدرآباد شھر کی ہوٹلوں اور ریسٹورینٹ کی وجہ سے خوبصورتی اور رونق بڑھ گئی ہے ۔رات کے ٹائم میں حیدرآباد کی رونق دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔اس طرح کے ریسٹورینٹ کھلنے رہنے چاہیے تاکہ دور دراز سے آنے والے لوگ اور شھر میں موجودہ لوگ سب اس کا لطف اٹھاتے رہیں۔ 
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   فاسٹ فوڈ کے شوقین حیدرآبادی
رحما تالپر
رول نمبر:50
ایم ۔اے پیریویس

پہلی دنیا ہو یا تیسری دنیا۔جو لوگ شہروں میں رہتے ہیںان میں سے بیشترنے کم ازکم ایک دفعہ تو برگر،فرائڈ چکن اور پیزا تو کھایا ہی ہوگا۔جن لوگوں کو مذکورہ کھانا مہنگا لگتا ہے،انہوں نے اس کے متبادل کے طور پر بند کباب تو یقینا خریدا ہوگا۔اور یہ اس طرح کے پکوان فاسٹ فوڈ کے زمرے میں آتے ہیں۔فاسٹ فود کی خوبی یہ ہے کہ آسانی سے دستیاب ہے،مزیدار ہے،فوری طور کھایا جا سکتا ہے اور آپ ایک پیکیٹ یا بیگ میں رکھ کر جہاں چاہے لے جا سکتے ہیں ۔ان خوبیوں کی بنےاد پر اسکی لت بڑی آسانی سے لگ سکتی ہے،بالخصوص بچوں کو۔اسی لیے ہر سال میں اربوں ڈالر میں فاسٹ فوڈ فروخت کیاجاتا ہے۔
لیکن اگر بات کی جا ئے ٹھنڈی فضاواںکے شہر حیدرآباد کی بات کی تو یہاں کے منچلے کوئی بھی تفریح کا موقع جانے نہیں دیتے۔حیدرآباد کے لوگ مختلف چیزوں کے شوقین ہیں جیسے کے فاسٹ فوڈ جس کا رحجان بڑھتا جارہا ہے جہاں بات آتی ہے کھانے پینے کی تو حیدرآباد کی عوام اس میں بھی کسی سے پیچھے نہیںہے۔ایک وقت تھا جب حیدرآباد میں کھانے پینے کی تو چند ہوٹلز اور ڈھابے ہوا کرتے تھے جہاں صرف دیسی کھانا ہی ملتا تھا کچھ روز پہلے یہاں فاسٹ فوڈ اور چائینز ڈشز کا کوئی رحجان نہ تھا تو یہاں کے لوگ ان سے بھی واقف نہ تھے پھر کچھ وقت بعد کافی جگہوں پر ہوٹلز کھولے گئے جیسے کے لطیف آباد ،قاسم آباد،صدر،ڈفینس،آٹو بھان وغیرہ۔جہاں ہر طبقے کے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ اور دوستوں یاروں کے ساتھ زندگی کے کچھ حسین پل گزارنے آتے ہیں اور نئے نئے ذائقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ویسے تو حیدرآباد میں بہت ساری چیزیں مشہور ہیں لیکن ان جگہوں کی رونقیں کچھ اور ہیںاگر ہائے کلاس  کے لوگوں کے لیے ریسٹورینٹ موجود ہیںتو ویسے ہی مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے بھی ہیں لطیف آباد 7 نمبر میں الفجر،انارکلی سینٹر۔لطیف آباد 8 نمبر میں کراچی بروسٹ ،سنوپی۔آٹوبھان روڈ پر پیزا 20، پی۔کے،آکسیجن،رائل تاج،لاموش ،ک۔ایف۔سی،مک ڈانلس ۔قاسم آباد میں پیزاہٹ ،سارنگ کیفے،بروسٹ لنک،انڈس کیفے وغیرہ بھی اپنی رونق برقرار رکھے ہوئے ہےں۔
پہلے زمانے میں بڑے بڑے گھر ہوتے تھے اس لیے گھر میں جتنے بھی مہمان آتے تھے تو کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی گھر کے سب افراد مل جل کر کام کرتے تھے آج کل گھر سے باہر کھانا کھانے یا کسی کی دعوت میں باہر کھانا کھانے کا رواج اس لیے بڑھ گیا ہے کہ آج کل گھر بلکل چھوٹے ہیں آبادی بڑھ گئی ہے جوائنڈ فیملی سسٹم تقریبا ًختم ہوگیا ہے ۔اب اگر کسی کی دعوت گھر میں کرتے ہیں تو گھر کی مالکہ مہمانوںکے ساتھ بیٹھے یا خود کچن سنبھالے اس لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ مہمانوں کو کسی ہوٹل ےا ریسٹورینٹ میں لے کر جائیںسب مل جل کر دعوت کا لطف اٹھائیں اور گیدرنگ بھی ہوجائے ا۔ آج کل مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں مثلاً لوڈشیڈنگ کو لے کر دن میں آٹھ سے دس گھنٹے بھی لائٹ موجود نہیںکبھی پانی نہیں ہے اس لیے لوگ اپنی پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے چھوٹی بڑی تقریبات باہر ہوٹلوں میں کرنا پسند کرتے ہیں مثلاًسالگرہ ،شادی ،چھوٹی بڑی دعوت وغیرہ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی وجہ سے تیں چار گھنٹے گھر کی پریشانیوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔آج کل لوگ آفس کی میٹنگ بھی ہوٹلوں میں کرنا پسند کرتے ہیں میٹنگ بھی ہوجاتی ہے ساتھ میں اچھا کھانا بھی کھانے کو مل جاتا ہے۔جتنا انسان کو ماحول اچھا اور پرسکون ملے گا اتنا ہی دماغ بھی اچھا کام کرے گا۔اور جو ہماری کام چور عورتیں ہوتی ہیں وہ گرمی کی وجہ سے زیادہ تر باہر سے کھانا منگواتی ہیں ایسے ہی کچھ ہماری نوجوان نسل کو بھی گھر کے کھانے سے زیادہ باہر کا فاسٹ فوڈ کھانا اتنا پسندکرتے ہیں کہ ان کا بس چلے تو تینوں وقت کاکھانا باہر سے کھائیں۔
الفجر ریسٹورینٹ پر موجود لوگوں سے ملاقات کی تو وہاں انہوں نے بتایا کہ یہاں کے رولز،بروسٹ برگراور کلب سینڈوچز بہت لزیز اور مزیدار ہیںجو کہ عام ریسٹورینٹ میں ایسا زئقہ دوسرے جگہ نہیں ملتا ےہ ریٹس بھی مناسب ہیں اور یہاں مڈل اور امیر تبقہ شوقیہ آتا ہے۔ایسے ہی رائیل تاج ریٹورینٹ کے سیل مینیجر سے پوچھا آپ کی کتنی سیل ہوتی ہے؟،کتنے کلائنڈ آتے ہیںاور کتنی کمائی ہوتی ہے؟ تو انھون نے بتایا ایک لاکھ یا کبھی اس سے بھی اوپر ہوجاتی ہے،سیل 5,6 لاکھ اور کلائنڈزس
5 ہزار کے قریب یا کبھی کسی دن کم بھی ہوتے ہیںوہاں موجود عاصم کی فیملی سے پوچھا آپ کا یہاں آنے کا ایکسپرینس کیسا رہا تو انھوں نے بتایا کہ ہم یہاں ہفتے میں 2,3بار ضرورآتے ہیںیہاں کا کھانا بہت پسند ہے اور ماحول پرسکون ہے۔ایسے ہی کے۔ایف ۔سی میں فیملی سے بات چیت ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ہر الٹر نیٹ ڈے پر اپنی فیملی کے ساتھ لنچ اور ڈنر کرنے آتے ہیں بچے بھی خوش ہوتے ہیں ان کے لیے پلےایریا بھی ہے ساتھ ہی ان کو چکی میل میں کھلونے بھی دستیاب کرتے ہیں جس سے بچے بہت خوش ہوجاتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ کا مزاج بھی لوگوں میں فیشن کی طرح بڑھ رہا ہے آئے دنوں سینکڑوں لوگ ریوسٹورینٹ کی طرف رجوع کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فاسٹ فوڈ کا رحجان روکنے سے بھی نہیں رکتا مڈل کلاس فیملی سے لے کر ھائی کلاس فیملی تک سارے فاسٹ فوڈ کے بغیر رہنے کو اذیت سمجھتے ہیں۔یہ دل کش رحجان اکژر ھائے کلاس فیملی میں پاےا جاتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ فاسٹ فوڈ فیملی نے بڑھاوا دیا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ غریب غربوں کے کام اور کام سے بڑھ کر ہے فاسٹ فوڈ،وہ بیچارے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیںکل سے پھر ان کو دو وقت کی روٹی کمانے کی پریشانی سائے کی طرح پریشان کر رہی ہوتی ہے۔اس میں کہنے میںکوئی حرج نہیں ہے۔غریبوں کا تعلق فاسٹ فوڈ سے دور دور تک نہیں ۔فاسٹ فوڈ اور غریبوں کا جیسا 36کاآکڑ۱ اسی لیے لگاتا ہے کہ غریبوں نے فاسٹ فوڈ سے علیحدگی کرلی ہے اگر دیکھا جائے تو مڈل کلاس فیملی اور ھائی کلاس کے علاوہ دوستوں کے بھیٹ چڑھا جاتا ہے۔ 
حیدرآباد شھر کی ہوٹلوں اور ریٹورینٹ کی وجہ سے خوبصورتی اور رونق بڑھ گئی ہے ۔رات کے ٹائم میں حیدرآباد کی رونق دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔اس طرح کے ریسٹورینٹ کھلنے رہنے چاہیے تاکہ دور دراز سے آنے والے لوگ اور شھر میں موجودہ لوگ سب اس کا لطف اٹھاتے رہیں۔ 

No comments:

Post a Comment