Wednesday 31 August 2016

مہناز صابر- پروفائل حسام الدین میرانی Mehnaz Sabir


Mehnaz Sabir 

M.A Previous 

Roll No 36



  ایکٹر، رائٹر اور ڈائریکٹر  حسام الدین میرانی 

پروفائل
مہناز صابر

کہتے ہیں کہ فن کسی کی میراث نہیں ایسا ہی حسام الدین میرانی کے ساتھ ہوا آپ کے والد ٹیچر تھے وہ چاہتے تھے کہ حسام بھی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بنیں لیکن حسام میں تو فنکار چھپا ہوا تھا اور ایک نہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف فنکارانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا بچپن ہی سے انہیں ڈرائنگ کا بہت شوق تھا 
اور جب بڑے ہوئے تو ایکٹر ،رائٹر اور ڈائریکٹر ،کی خصوصیات بھی ابھر کر سامنے آئیں ۔

حسام الدین میرانی تعلقہ پنو عاقل کے ایک گاؤں چندن میانی میں 4جولائی 1986میں پیدا ہوئے بہن بھائیوں میں آپ ساتویں نمبر پر ہیں آپ کے والد سکندر علی میرانی اپنے علاقے میں استاد ساجن کے نام سے مشہور تھے چونکہ وہ ادیب اور شاعر تھے اس لئے ساجن اس کا تخلص تھا پیشے کے اعتبار سے پرائمری ٹیچر تھے آپ نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لئے 1990کی دھائی میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے لئے جعغرافیہ کی ایک کتاب لکھی تھی اسکے علاوہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں آپ کے لکھے ہوئے اسباق بھی شامل ہیں ۔

حسام الدین میرانی کو پڑھنے لکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن انہیں ڈرائنگ کا پچپن ہی سے جنون کی حد تک شوق تھا اس فیلڈ میں آپ کسی سے متاثر ہوکر نہیں آئے بلکہ یہ ایک قدرتی لگن تھی جو آج انہیں اس مقام تک لے آئی اور انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں میں اپنا لوہا منوا لیا ۔

حسام کے بڑے بھائی اور بہن پڑھائی میں انتہائی ذہین تھے اور ان کا اپنی کلاس کے نمایا ں طالب علموں میں شمار ہوتا تھا چونکہ ان کے والد ٹیچر تھے اس لئے ان کی خواہش تھی کہ حسام بھی اپنے بھائیوں کی طرح پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنیں لیکن جب انہوں نہ یہ دیکھا کہ حسام کی توجہ صرف اور صرف ڈرائنگ کی طرف ہے تو انہوں نے حسام کو پرائیوٹ اسکول سے نکلواکر گورنمنٹ اسکول میں داخل کر وادیا باقی سارے بھائی بہن پرائیوٹ اسکو ل میں پڑھے اور صرف حسام گورنمنٹ اسکول میں ۔ لیکن حسام اس بات دل برداشتہ نہیں ہوئے اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرتے رہے ۔ 


پرائمری تعلیم آپ نے گاؤں میں حاصل کی میٹرک اور انٹر میڈیٹ آپ نے گورنمنٹ اسکول و کالج پنو عاقل سٹی سے کیا انٹر کے بعد آپ نے کوشش کی کہ والدین کی خواہش پوری کریں کیونکہ آپ کے دو بڑے بھائی داکٹر بن رہے تھے ایک نیوی آفیسر ، ایک وکیل اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، سب ہی کسی نہ کسی اچھی فیلڈ میں تھے اس لئے آپ نے والد کی خواہش کے مطابق انجینئر بننے کے لئے قائد اعوام یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن آپ وہاں نہیں پڑھ سکے اور آپ نے فرسٹ سمسٹر میں ہی یونیورسٹی چھوڑ دی پھر آپ نے سینٹر آف ایکسیلنس ان آرٹس اینڈ ڈیزائن میں داخلہ لیا وہاں سے آپ نے بیچلر کی ڈگری سیکنڈ ڈیژن میں حاصل کی ماسٹر کی ڈگری فاؤنڈیشن یونیورسٹی آف اسلام آباد سے حاصل کی جس میں آپ نے فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور آپ کو سلور میڈل سے نوازا گیا اور اس طرح اس فیلڈ میں آپ نے اپنی قابلیت ثابت کر دی ۔

یونین پولیٹکس کا بھی شوق رہا یونیورسٹی ٹائم میں تین سال تک یونین کے صدر رہے اور اب سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسو سی ایشن کا حصہ بھی ہیں اور الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے پہلی جاب سینٹر آف ایکسیلنس ان آرٹس اینڈ ڈیزائن میں بطور اسٹنٹ ٹیچر چھ ماہ تک کی پھر ڈیڑھ سال تک نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے اس کے بعد پاکستان انسٹیٹوٹ آف فیشن ڈیزائن لاہور میں دو سال لیکچرار رہے اور اب گذشتہ تین سال سے سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار کے فرائض سر
انجام دے رہے ہیں ۔ 

اس کے علاوہ آپ مختلف اداروں کے لئے بھی کام کرتے رہتے ہیں سندھ کلچر ٹوئریزم ڈپارٹمنٹ کے لئے ایڈورٹائزنگ اور ڈیزاننگ کی ۔(NGOs) کے لئے بھی کام کرتے رہے ہیں سندھ گریجویٹ ایسو سی ایشن پنو عاقل کا بھی ایونٹ منجمنٹ اور پبلیسٹی کا کام کرتے ہیں سگا کے نام سے پورے سندھ میں پروگرام کرتے ہیں روشن تارا کے نام سے سندھ بھر کے ہر شہر میں ایک ایک اسکول ہے۔ یونائٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ پروگرام والے اپنا سارا کام ایسٹ لائن کمیونیکیشن کمپنی کو دیتے ہیں تو آپ ان کو لئے ڈیزائننگ کرتے ہیں اس کے علاوہ عقاب تھیٹر سوساٹی پنو قائل کے لئے تھیٹر کا کام کرتے ہیں اُس میں آپ ایکٹنگ کرتے ہیں اور رائٹر اور ڈائریکٹر کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں ۔
آپ کے دوست رمضان کا کہنا ہے کہ جب کام ہوتاہے تو آپ کو کچھ دکھائی نہیں دیتا کام ، کام اور بس کام ۔ اور وہ آپ کے پیشہ سے بھی مطمئن ہیں ان کا کہنا ہے کہ حسام اپنے پیشہ سے صحیح انصاف کریں گے دوسرے دوست عبدالمجید جوکہ آپ کی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ کمپرومائز نہیں کرتے چاہے خود نقصان اٹھا لیں گے ان کے مطابق آپ بہت ملنسار ، کوآپریٹواور خوش اخلاق شخصیت کے مالک ہیں ۔
حسام کی خواہش اور کوشش ہے کہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کا پاکستان میں جو لیول ہے اس کو چینج کیا جاسکے ان کا کہنا ہے کہ اللہ کا کرم ہے کہ اپنی  
فنکارانہ صلاحیتوں سے آج وہ اس مقام پر ہیں کہ ان کے والدین کو بھی ان کو فخر ہے
Mehnaz Sabir  M.A Previous 
Roll No 36

No comments:

Post a Comment