Tuesday 16 August 2016

قدیم سندھ کا بلند ترین عجوبہ :میرمعصوم شاہ کا مینار



ثناء شیخ
رول نمبر:۵۰
میڈیااینڈ کمیونیکیشن
ایم۔اے(پریویس)
فیچر
قدیم سندھ کا بلند ترین عجوبہ :میرمعصوم شاہ کا مینار
سکھر سندھ کا تیسرابڑاشہر ہے جس کے آثارقدیمہ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سکھرشہرموہن جو دڑوکے زمانے کا شہر ہے جہاں سندھ کی ہزاروں تاریخیں لکھی گئی ہیں ۔اگر تاریخی مقامات کی بات کی جائے توسکھرشہر کا نام سرِ فہرست آتا ہے ۔جہاں کا ہر تاریخی مقام اپنی داستان بیان کرتا نظرآتا ہے اب وہ چاہے سادوبیلا ہو یا سات سہیلیوں کا مزار چاہے صدرالدین بادشاہ کا مزار ہو ہر مقام اپنی مثال آپ پیش کرتا ہے ایسا ہی ایک مقام سندھی مسلم تاریخ کا مشہور نام مشہورمصنف سندھ کی تاریخ کو قلم بندکرنے والے سید نظام الدین شاہ کا مزار ہے جسے لوگ میرمعصوم شاہ کے مزارکے نام سے بھی جانتے ہیں اگر اس معصومی مینار کو
دنیا کے عجوبوں میں سے ایک عجوبہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ 
میر معصوم شاہ نے اس مزار کو بنوانے میں خود حصہ لیاتھا چارسو سال پرانا یہ مزار تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس مینار کو مکمل ہونے میں تیئیس سال لگے تھے شہنشاہ اکبر کی نگرانی میں یہ مزار سولہ سو پانچ ۱۶۰۵ھ میں مکمل ہواجس کا افتتاح شہنشاہ جلال الدین اکبر نے خود کیا تھا ۔میری معصوم شاہ کا مینار دہلی کے قطب مینار کی طرز پر تعمیرکیا گیا تھا۔

میر معصوم شاہ سولہویں صدی کے سندھی مسلم تاریخ دان،طب سازاورمشہورمصنف بھی تھے ۔انہوں نے ایک تاریخی کتاب بھی لکھی تھی جسے دنیا ’’تاریخ معصومی ‘‘کے نام سے جانتی ہے ۔میر معصوم شاہ کو شاعری بہت پسندتھی اس لئے انہوں نے یہ مینار تعمیرکروانے سے پہلے بارہ دری بنوائی جسے فیض محل یا آرام گاہ بھی کہا جاتا ہے جہاں اکبر بادشاہت کے زمانے میں مجالس اور شاعری کے پروگرام منعقد کروائے جاتے تھے میر معصوم شاہ کے مینار،دیواروں،گنبدوں اور فیض محل کے چاروں اطراف میں خوبصورت خطاطی کی گئی ہے اوراس میں استعمال کئے گئے ٹائلز فنِ خطاطی کا بہترین نمونہ ہے۔خطاطی کے علاقہ خوبصورت نقش و نگار مغلیہ دورکے فنِ تعمیرکی یاد دلاتا ہے۔چونکہ اس زمانے میں کوئی سیمنٹ موجودنہیں تھی اس لئے دال اور چلولی کا مٹیریل ڈال کر اس مینار کو بنوایا گیا جس کی مضبوطی چارسو سال سے قائم و دائم ہے۔
ایک دلچسپ بات جو اس تاریخی مینار کو باقی مقامات سے منفردبناتی ہے اس میں عددچوراسی کو خاص اہمیت حاصل ہے معصوم شاہ کا مینار لال اینٹوں سے بناصوبہ سندھ کا اونچا اور قدیم ترین مینارہے۔سکھر کی یہ واحد عمارت ،مختلف پہلوؤں سے عددچوراسی سے جڑی ہے ۔یہ پورا کا پورا معصومی مینار عددچوراسی پرمشتمل ہے۔جس کی اونچائی بھی چوراسی فٹ ہے ،چوڑائی بھی چوراسی فٹ ہے،گہرائی بھی چوراسی فٹ ہے اورگولائی بھی چوراسی فٹ ہے اس مینار تک پہنچنے کیلئے جو سیڑھیاں درکار ہیں وہ بھی چوراسی ہیں۔مینارپر چڑھنے کیلئے جوسیڑھیوں کی راہ داری ہے وہ نہایت تنگ ہے اس لئے کسی صحت مند انسان کو مینار کو طے کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ا س معصومی مینار کو بطورواچ ٹاوربنوایاگیا تھا اوراس کو بنوانے کا بنیادی مقصدیہی تھا کہ اس مینار تک پہنچ کر سکھرشہرکے دلفریب مناظردیکھے جاسکیں اس مینارسے بہتا دریائے سندھ اوراس پر واقع سکھربیراج بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جس طرح ایک پرندہ اونچائی سے سارے مناظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرلیتا ہے ایسے ہی یہاں آنے والے سیاح بھی ان مناظرکو اپنی آنکھوں میں
نظربندکرلیتے ہیں۔
سکھر کے مختلف علاقوں سے میرمعصوم شاہ کے مریدیایوں کہیں کہ ان کے ماننے والے اور ہزاروں کی تعداد میں روزاس مینار کا دورہ کرنے آتے ہیں اور مختلف انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں کچھ لوگ فاتحہ پڑھتے ہیں توکچھ چادریں چڑھاتے ہیں ،کچھ لوگ قرآن خوانی کرتے ہیں تو کچھ لنگرچلا کر اپنی محبتوں کو نظرانہ پیش کرتے ہیں ۔اس مینار کے قریب میرمعصوم شاہ کی قبر کے ساتھ ساتھ ان کے دلعزیزرشتہ داروں اورآباؤاجدادکی قبریں بھی واقع ہیں جن کو قرآنی آیات اور فارسی کی کلمات سے سجایا گیا ہے اورجو سازوسامان اس میں استعمال کیا گیا ہے سرخ بلواپتھر،سرخ اینٹیں ،سنگِ مرمراورشیشے کے کورشامل ہیں۔
پہاڑ کی چوٹی پر واقع یہ مینارچار منزلوں پر مشتمل ہے اورہر منزل پر دریچے بھی بنائے گئے ہیں جہاں سے سکھر شہر کے حیرت انگیز مناظر کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔اس مینارمیں استعمال ہوا پتھرمیرمعصوم شاہ بکھری نے جے پور سے منگوایا تھا۔ سکھر جیسا گرم ترین شہر ہونے کے باجودبھی ان اینٹوں کی تاثیرٹھنڈی رہتی ہے ۔مینار کی اونچائی پر بنے ہوئے گنبدپر کاریگری کے لئے کاریگر بھی ہالاسے بلوائے گئے تھے۔پرانے وقتوں میں اس مینار پر کوئی جالیاں نسب نہیں تھیں ۔برطانوی دورمیں کئی افرادنے اس مینارسے کودکرخودسوزی کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے انگریزوں نے مینارکے اطراف میں لوہے کی سلاخیں نسب کرائیں ۔اس مینارکے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ فیض محل بارہ دری کی طرف تھوڑاجھکاہوا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سندھ میں شدیدزلزلے کے بعد جھکا ہے اورکچھ کا مانناہے کہ یہ معصوم شاہ کی کاریگری کا ہی کوئی کمال ہے ۔
سندھ میں شدیدزلزلے کے باعث اس قدیم عمارت کو گہرا نقصان پہنچاتھا۔حال ہی میں اس کی مرمت کیلئے فیڈرل گورنمنٹ نے پچیس ملین منظور کروائے تھے ۔لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اب تو صرف ہوامیں تیر چلانے کی رسم پوری کی جارہی ہے ۔اس مینار کی دیکھ بھال کے لئے ایک ٹھیکیداربھی رکھا گیا ہے جبکہ معصومی خاندان کے چشم و چراغ اس تاریخی مینار کی نگرانی کرتے ہیں اس مینار کی زیارت کرنے کیلئے ٹکٹ لگایاگیا ہے ۔ٹکٹ خریدنے کیلئے نوجوانوں سے بیس روپے اوربچوں سے دس روپے لئے جاتے ہیں مینار کے قریب معصوم شاہ کے چاہنے والوں کیلئے ایک مسجد بھی تعمیرکروائی گئی ہے جو’’چاندمسجد‘‘کے نام سے مشہور ہے جہاں ان کے مریدخصوصی طورپر نماز عیداداکرنے آتے ہیں اورآس پاس کے رہائشی بھی بالخصوص نمازِ جمعہ اداکرنے اسی مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔چارسوسال پرانا یہ مینارآج بھی سندھ کی تاریخی ثقافت کوزندہ رکھے ہوئے ہے یہ میناراب سندھ محکمہ اوقاف کی نگرانی میں ہے اوراس مینارکو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی تاریخ کے ان پنّوں سے روبروہوسکیں اوراس مینارسے دیکھے جانے والے سکھرشہرکے خوبصورت مناظرسے لطف اندوزہوسکیں۔

No comments:

Post a Comment