Wednesday, 31 August 2016

مہناز صابر- پروفائل حسام الدین میرانی Mehnaz Sabir


Mehnaz Sabir 

M.A Previous 

Roll No 36



  ایکٹر، رائٹر اور ڈائریکٹر  حسام الدین میرانی 

پروفائل
مہناز صابر

کہتے ہیں کہ فن کسی کی میراث نہیں ایسا ہی حسام الدین میرانی کے ساتھ ہوا آپ کے والد ٹیچر تھے وہ چاہتے تھے کہ حسام بھی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بنیں لیکن حسام میں تو فنکار چھپا ہوا تھا اور ایک نہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف فنکارانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا بچپن ہی سے انہیں ڈرائنگ کا بہت شوق تھا 
اور جب بڑے ہوئے تو ایکٹر ،رائٹر اور ڈائریکٹر ،کی خصوصیات بھی ابھر کر سامنے آئیں ۔

حسام الدین میرانی تعلقہ پنو عاقل کے ایک گاؤں چندن میانی میں 4جولائی 1986میں پیدا ہوئے بہن بھائیوں میں آپ ساتویں نمبر پر ہیں آپ کے والد سکندر علی میرانی اپنے علاقے میں استاد ساجن کے نام سے مشہور تھے چونکہ وہ ادیب اور شاعر تھے اس لئے ساجن اس کا تخلص تھا پیشے کے اعتبار سے پرائمری ٹیچر تھے آپ نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لئے 1990کی دھائی میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے لئے جعغرافیہ کی ایک کتاب لکھی تھی اسکے علاوہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں آپ کے لکھے ہوئے اسباق بھی شامل ہیں ۔

حسام الدین میرانی کو پڑھنے لکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن انہیں ڈرائنگ کا پچپن ہی سے جنون کی حد تک شوق تھا اس فیلڈ میں آپ کسی سے متاثر ہوکر نہیں آئے بلکہ یہ ایک قدرتی لگن تھی جو آج انہیں اس مقام تک لے آئی اور انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں میں اپنا لوہا منوا لیا ۔

حسام کے بڑے بھائی اور بہن پڑھائی میں انتہائی ذہین تھے اور ان کا اپنی کلاس کے نمایا ں طالب علموں میں شمار ہوتا تھا چونکہ ان کے والد ٹیچر تھے اس لئے ان کی خواہش تھی کہ حسام بھی اپنے بھائیوں کی طرح پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنیں لیکن جب انہوں نہ یہ دیکھا کہ حسام کی توجہ صرف اور صرف ڈرائنگ کی طرف ہے تو انہوں نے حسام کو پرائیوٹ اسکول سے نکلواکر گورنمنٹ اسکول میں داخل کر وادیا باقی سارے بھائی بہن پرائیوٹ اسکو ل میں پڑھے اور صرف حسام گورنمنٹ اسکول میں ۔ لیکن حسام اس بات دل برداشتہ نہیں ہوئے اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرتے رہے ۔ 


پرائمری تعلیم آپ نے گاؤں میں حاصل کی میٹرک اور انٹر میڈیٹ آپ نے گورنمنٹ اسکول و کالج پنو عاقل سٹی سے کیا انٹر کے بعد آپ نے کوشش کی کہ والدین کی خواہش پوری کریں کیونکہ آپ کے دو بڑے بھائی داکٹر بن رہے تھے ایک نیوی آفیسر ، ایک وکیل اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، سب ہی کسی نہ کسی اچھی فیلڈ میں تھے اس لئے آپ نے والد کی خواہش کے مطابق انجینئر بننے کے لئے قائد اعوام یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن آپ وہاں نہیں پڑھ سکے اور آپ نے فرسٹ سمسٹر میں ہی یونیورسٹی چھوڑ دی پھر آپ نے سینٹر آف ایکسیلنس ان آرٹس اینڈ ڈیزائن میں داخلہ لیا وہاں سے آپ نے بیچلر کی ڈگری سیکنڈ ڈیژن میں حاصل کی ماسٹر کی ڈگری فاؤنڈیشن یونیورسٹی آف اسلام آباد سے حاصل کی جس میں آپ نے فرسٹ پوزیشن حاصل کی اور آپ کو سلور میڈل سے نوازا گیا اور اس طرح اس فیلڈ میں آپ نے اپنی قابلیت ثابت کر دی ۔

یونین پولیٹکس کا بھی شوق رہا یونیورسٹی ٹائم میں تین سال تک یونین کے صدر رہے اور اب سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسو سی ایشن کا حصہ بھی ہیں اور الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے پہلی جاب سینٹر آف ایکسیلنس ان آرٹس اینڈ ڈیزائن میں بطور اسٹنٹ ٹیچر چھ ماہ تک کی پھر ڈیڑھ سال تک نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے اس کے بعد پاکستان انسٹیٹوٹ آف فیشن ڈیزائن لاہور میں دو سال لیکچرار رہے اور اب گذشتہ تین سال سے سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار کے فرائض سر
انجام دے رہے ہیں ۔ 

اس کے علاوہ آپ مختلف اداروں کے لئے بھی کام کرتے رہتے ہیں سندھ کلچر ٹوئریزم ڈپارٹمنٹ کے لئے ایڈورٹائزنگ اور ڈیزاننگ کی ۔(NGOs) کے لئے بھی کام کرتے رہے ہیں سندھ گریجویٹ ایسو سی ایشن پنو عاقل کا بھی ایونٹ منجمنٹ اور پبلیسٹی کا کام کرتے ہیں سگا کے نام سے پورے سندھ میں پروگرام کرتے ہیں روشن تارا کے نام سے سندھ بھر کے ہر شہر میں ایک ایک اسکول ہے۔ یونائٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ پروگرام والے اپنا سارا کام ایسٹ لائن کمیونیکیشن کمپنی کو دیتے ہیں تو آپ ان کو لئے ڈیزائننگ کرتے ہیں اس کے علاوہ عقاب تھیٹر سوساٹی پنو قائل کے لئے تھیٹر کا کام کرتے ہیں اُس میں آپ ایکٹنگ کرتے ہیں اور رائٹر اور ڈائریکٹر کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں ۔
آپ کے دوست رمضان کا کہنا ہے کہ جب کام ہوتاہے تو آپ کو کچھ دکھائی نہیں دیتا کام ، کام اور بس کام ۔ اور وہ آپ کے پیشہ سے بھی مطمئن ہیں ان کا کہنا ہے کہ حسام اپنے پیشہ سے صحیح انصاف کریں گے دوسرے دوست عبدالمجید جوکہ آپ کی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ کمپرومائز نہیں کرتے چاہے خود نقصان اٹھا لیں گے ان کے مطابق آپ بہت ملنسار ، کوآپریٹواور خوش اخلاق شخصیت کے مالک ہیں ۔
حسام کی خواہش اور کوشش ہے کہ آرٹس اینڈ ڈیزائن کا پاکستان میں جو لیول ہے اس کو چینج کیا جاسکے ان کا کہنا ہے کہ اللہ کا کرم ہے کہ اپنی  
فنکارانہ صلاحیتوں سے آج وہ اس مقام پر ہیں کہ ان کے والدین کو بھی ان کو فخر ہے
Mehnaz Sabir  M.A Previous 
Roll No 36

Thursday, 25 August 2016

احسن شکیل - فقیر بشیر احمد لغاری ,پروفائل

pic??
فقیر بشیر احمد لغاری 
پروفائل 
تحریر : احسن شکیل  
فقیر بشیر احمد لغاری صدیوں پرانے گاؤں فقیر غلام علی سے تعلق رکھتے ہیں ، جو کہ ضلع میرپورخاص کے شہر ڈگری سے تقریباً 5کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ کے والد کا نام حاجی عبداللہ لغاری تھا ، آپ 1947 ؁ء میں اپنے آبائی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے 1956میں حاصل کی ۔ اور سیکنڈری تعلیم 1961میں ڈگری سے حاصل کی۔ آپ نے بین القوامی تعلقات میں ماسٹر ز 1975میں کیا۔

آپ نے اپنے علمی اور ادبی ذوق اور لوگوں کی بھلائی کی تکمیل کیلئے ایک تاریخی لائبیریر ی قائم کی ، جس کا نام فقیر بشیر احمد پبلک لائبریری ہے۔ اس لائبریر ی کا افتتاح پیر صاحب پگارہ ( مرحوم) نے 1960میں کیا۔ یہ لائبریری کسی بھی لحاظ سے بڑے شہر وں کی لائبریریوں سے کم نہیں ہے۔ مشہور کتابیں اور قلمی نسخوں سے سجی ہوئی یہ لائبریری کسی ریسرچ سینٹر یا انسٹیٹوٹ کی طرح ترتیب دی ہوئی ہے۔ پچھلے 55سالوں سے قائم اور دنوں دن ترقی کرتی ہوئی اور اپنی منزلیں طے پاتی ہوئی اس گاؤں کی لائبریری علم ، ادب ، تاریخ ، سیاست، سماجیت ، مذہب پر مشتمل اور دوسری زبانوں پر مشتمل لاتعداد میگزین ، سفر نامے ، بروشر کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ اس لائبیریری میں اردو، انگریزی، سندھی ، پنجابی ، عربی اور فارسی زبانوں پر مشتمل تقریباً 25ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اور 44جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا جیسی نایاب کتابیں جس کے محتاط اندازے کے متعلق دنیا میں صرف چار نسخے موجود ہیں، جن کی مالیت تقریباً 5کروڑ ڈالر ہے، جو کہ اس لائبریری کی زینت ہے۔ اس لائبریری میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی سریل ، مخدوم محمد ہاشم نٹوی کا لکھا ہوا قرآن پاک ، خلیفہ قاسم اور دوسرے بزرگوں اور درویشوں کی شاعری کے نایاب قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سندھی ، عربی اور فارسی زبانوں کے چار سوسال پرانے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔
اس لائبریری کی عمارت جو کہ ایک ریڈنگ ہال اور کتابوں کے کمرے پر مشتمل ہے ، یہ کسی بھی لحاظ سے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہوئی اور ایک چھوٹے سے گاؤں کی لائبریری نہیں لگتی۔ اس لائبریری کا پیر صاحب پگارہ مرحوم ، میر علی احمد خان ٹالپر ، محمد خان جونیجو سابق وزیر اعظم ، معراج محمد خان، عمران خان، مخدوم سجاد حسین قریشی ، رسول بخش پلیجو اور کئی مشہور اسکالر اور اہم شخصیات سمیت فرانس اور برطانیہ کے کونسل جنرل اور ورلڈ بینک ناروے ڈائریکٹر جنرل وزٹ کرچکے ہیں۔

آپ کا کہنا ہے کہ اس لائبریری کوتاریخی لائبریری بنانا میرا دلی شوق اور زندگی کی خواہش تھی۔ اور آپ نے یہ لائبریری بجلی نہ ہونے والے زمانے میں بنائی۔ آپ نے دن رات ایک کرکے ان کتابوں کا ذخیرہ اکھٹاکیا تاکہ آنے والی نسلیں ان کتابوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

آپ نے ساتھ ہی ساتھ اپنے گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بھی بنایا ، اس گاؤں میں پرائمری اور مڈل بوائز اور گرلز اسکول ، ہاسپٹل ، پبلک لائبریری، پوسٹ آفس ، واٹر سپلائی ، پی ٹی سی ایل سروسز اور بجلی ، پکی سڑکیں اور مدرسہ و مسجد بھی موجود ہیں جو صرف آپ کی کاؤشوں کا نتیجہ ہے۔ آپ نے اپنے گاؤں میں کچھ چنے ہوئے لوگوں کو لے کر ایک تنظیم بنائی ، اور ایک باڈی بنا کر اس تنظیم کی سربراہی کررہے ہیں۔ اس تنظیم کا کام چانچ پڑتال کرنا ہے کہ ہاسپٹل میں ڈاکٹرز ہیں یا نہیں ، ادویات پوری ہیں یا نہیں ، اسکولوں میں ٹیچرز ہیں یا نہیں ، لوگوں کو صاف پانی مہیا ہورہا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس مغل ، سمہ ، ٹالیر اور دوسرے اداروں کے سکے ، تلواریں ، نیزے، ڈھالیں اور بہت سے نوادرات بھی موجود ہیں۔ جس کیلئے آپ ایک عجائب گھر کی تعمیر کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ نے علمی کاؤشوں کی بدولت بے شمار میڈلز اور تعریفی اسناد حاصل کئے ۔
اور عنقریب آپ کی لکھی ہوئی دو کتابیں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے علم میں اضافہ کرنے کیلئے دستیاب ہوں گی۔

رحما تالپر,بجلی چوری


بجلی چوری
آرٹیکل
رحما تالپر
رول نمبر:50
ایم۔اے۔پریویس
آج کے دور میں سائنس نے کافی ترقی کی ہے اور دن بہ دن ترقی کرتی جارہی ہے۔دنیا میںآج تک بہت سی ایجاد یں ہوئیں جن میں سے ایک ایجاد بجلی ہے۔اس وقت پاکستان معاشی بحران کے ساتھ تعلیم،مہنگائی ،امن امان کا مثلہ ،گئس اور سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا بحران ہے ۔آج ہم اور ہماری زندگی اس مقام پر ہے جہاں بجلی کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔بجلی سائنسدانوں کی طرف سے ایک ایسی کامیابی ہے،جو ہماری ضرورت بن گئی ہے اور اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔آج کل پاکستان میں ہر شخص بجلی سے مہروم ہے کیونکہ ہمارے ملک میں توانائی کا بحران ہے جس کا سب سے زیادہ اثر عوام پر پڑ رہا ہے۔


پہلے زمانے کے انسان کے ترزندگی میں اور اب کے ترزندگی میں بہت فرق ہے پہلے بڑے گھر ہوا کرتے تھے اور دیواریں موٹی ہوا کرتی تھیں امومن گھروں کے صحن میں درخت ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے ٹھنڈی ہوائیں میسر ہوا کرتی تھیں اب تو زیادہ آبادی کی وجہ سے گھر چھوٹے رہائش فلیٹس میں تبدیل ہوگئے ہیں جس کے لیے بجلی کا ہونا لازمی ہے اور اس کے علاوہ شہروں میں ٹرانسپورٹ کی زیادتی کی وجہ سے پولیوشن اور گرمائش بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے بجلی کا انتظام بدانتظامی کا شکار ہے۔

اب سوال یہ آتا ہے کہ بجلی چوری کیوں ہو رہی ہے ؟کیا صرف ہم عوام ملوث ہیں اس کام میں صرف عوام ہی نہیں ساتھ ہی اس میں HESCO کے لوگ بھی شامل ہیں۔HESCO کی ناجائزیوں اور بشموراضافی بلنگ کا بوجھ بھی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے جس میں بجلی کا چوری ہونا یہ برائی جڑ پکڑ گئی ہے اور کنڈا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے اس وجہ سے کرسیلے بجلی میں نقائص پیدا ہوئے ہیں اگر HESCO والے ایماندار ہوجائیں پبلک کو صہیح بل ارصال کریں تو بجلی کی چوری کم سے کم ہوجائے۔بجلی چوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے بجلی کو بہت مہنگا کر دیا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بل بھرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔
سندہ کے کئی علائقوں اور شھروں میں یہ مسئلہ عام پایا جاتا ہے کہ لوگ آئے دنوں احتجاج کے لیے ایسے تیار رہتے ہیں جیسے بکھاری خیرات کے لیے ساری اراضی کا چکر لگانے کے بعد معلوم یہ ہوتا ہے کہ قصور صرف ایک کا نہیں بلکہ اس میں سارے لوگ شریک ہیں۔اس شھر میں بجلی چوری تو ایک رسم بن کر رہ گئی ہے جس کی سزا سارے شھر اور محلے والوں کو بھگتنی پڑتی ہے چند روپوں کے عیوض آفس میں بھیٹے معزز لوگ لوگوں کو بجلی چوری کی ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔اگلے دن جب بجلی چوری کے خلاف کوئی آفیسر ریٹ کرتا ہے تو وہی پیسوں کے لیے بکتے ہوئے بکاؤ لوگ ان کو پہلے ہی آگاہ کردیتے ہیں۔


چینل کے قریب وابستہ ایک دکاندار نے عجیب حالات بتائے یہ لوگ خود بجلی چوری کرتے ہیں اور کرنے کے لیے کہتے ہیں ان لوگوں کا کہنا یہ ہوتا ہے اگر آپ بجلی چوری نہیں کروگے تو اتنی مہنگائی کے دور میں اپنا باورچیخانہ کیسے چلا پاؤ گے دراصل ہمارے باورچیخانے کی نہیں بلکہ اپنے باورچیخانے کی بات کرتے ہیں جو کہ قانون کے خلاف ہے ۔پھر بھی یہ اپنا کوٹہ پورا کرنے اور بچوں کی پڑھائی کا خرچہ نکالنے کے لیے یہ شرم سار حرکت خود بھی کرتے ہیں اور دسروں کو بھی کرنے کا گراوئنڈ میسر کرتے ہیں کئی ایسے گھر اور دکان بلکہ بھہت سارے گھر اور دکان ایسے ہیں جس میں بہت سارے ایئر کنڈیشں لگے ہوئے ہیں اور وہ مشکل سے 2یا 3 ہزار بل پے کرتے ہیں۔


بجلی چوری کی وجہ سے آئے دن ٹرانسفارمر اپنا کام کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں2سے 3 ایسی چلتے ہیں جس کی وجہ سے لوڈ بڑھ جاتا ہے اور تار جل جاتے ہیں جس کی وجہ سے عوام آئے دن پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔لائن لاسس کی وجہ سے پرانا نظام ناقص مٹیریل کی وجہ ہے۔HEsCo والوں کو چاہیے کہ جدید ترین ٹیکنالاجی استعمال کریں تاکہ HESCOکے ملازمین کی ملی بگھت سے میٹر ریورس کیے جاتے ہیں جس سے کمپنی کو بہت ما لی نقصان ہوتا ہے اور انڈر گراوئنڈ سسٹم شروع کریں تاکہ کنڈا سسٹم ختم کریں۔


حکومت ہمیشہ اعلان کرتی رہتی ہے کہ بجلی چوروں کو قانون کے کٹھرے میں کھڑا کیا جائے گا لیکن یہ حرف اعلان ہی رہ جاتا ہے کیا بجلی چوروں میں عوام ہی ملوث ہے اس محکمے کے عملدار ملوث نہیں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمے پر سخت چیک اینڈ بیلینس رکھا جائے اور جہاں پرانی تاریں لگی ہوئی ہیں وہاں نئی تاریں لگا کر انسانی زندگیوں کو بچایا جائے۔

Wednesday, 24 August 2016

وسيم احمد پروفائيل, استاد جاويد احمد انڙ

Waseem Ahmed


استاد جاويد احمد انڙ



صدين کان سرهي سنڌ ڌرتي جي سيني تي هميشه اهڙا ڪئين مڻيادار ماڻهو جنم وٺندا رهيا آهن، جن پنهنجي خداداد صلاحيتن سان هن ڌرتيءَ جي ماڻهن جي خدمت کي پنهنجو فرض سمجهندي پنهنجي زندگي بامقصد نموني سان گذاري آهي. اهڙن ماڻهن کي تاريخ ڪڏهن به وساري نه سگهندي آهي، انهن جو ڪيل پورهيو سندن نالي کي هميشه زنده رکندو رهندو آيو آهي، پوءِ اهو پورهيو علمي هجي يا ادبي، سياسي هجي يا سماجي، تاريخي هجي يا ثقافتي. علم و ادب ۾ سنڌ ڌرتي هميشه شاهوڪار رهي آهي، هتان جي قلم ڌڻين هميشه پنهنجي قلمي پورهئي سان ڌرتي جي بقا جي جنگ ۾ پنهنجو حصو ڳنڍيو آهي، اهو سلسلو صدين کان هلندو اچي ۽ صدين تائين هلندو رهندو. اهڙي مثال جهڙي هڪ پڙهيل لکيل ۽ سماج لاءِ پنهنجون خدمتون پيش ڪندڙ شخصيت جي باري ۾ ٻڌايون ٿا. جنهن جو نالو استاد جاويد احمد انڙ آهي. سندس پيدائش 1968 ۾ شاهپور چاڪر جي هڪ ننڍڙي ڳوٺ عمر آباد ۾ ٿي.
  پنهنجي ٻالڪپڻ جي بابت جاويد انڙ  ٻڌائي ٿو ته ڳوٺ جي ڪلراٺين گلين ۾ کيڏندي، ڳوٺ جي پرائمري اسڪول جي ڀڳل بينچن تي شروعاتي تعليم پرائيندي گذاريو. ننڍپڻ جو وقت خودمختيار رياست جي خودمختيار حڪمران جيان هوندو آهي، جتي پنهنجي مرضيءَ سان بيباڪ جيون جون ڇڙواڳ گهڙيون  ڪنهن بيبها دولت جيان هونديون آهن. گهر جو مٽيءَ سان لتل آڳر جو چهرو چانديءَ جيان چمڪندو هو، صبح جي مهل پکين جون ٻوليون ۽ شام جي شفق رنگن ۾ لهندڙ سج جي منظر سان ڌنارن جا ڌڻ ۽ پکين جا واپس ويندڙ ولرن جا ڏيک عجيب سرور ڏيندا هئا. ويل وقت جا اهي ورق دل جي ڪتاب تي ورائي ڏسبا آهن ته دل باغ بهار ٿي پوندي آهي.
1985 ۾ مئٽرڪ شاهپور چاڪر جي هاءِ اسڪول مان پاس ڪئي، ان کان پوءِ يارهون ۽ ٻارهون مسلم ڪاليج حيدرآباد سال 1987 مان پاس ڪيو. 1989 ۾ گورنمينٽ ڊگري ڪاليج مان بي ايس سي پاس ڪئي. ساڳئي سال سنڌ گريجوئيٽس ايسوسيئيشن(سگا) جا رضاڪار ميمبر ٿيا. ۽ سال 1990 ۾ شاهپور چاڪر هاءِ اسڪول ۾ جي ايس ٽي طور ڀرتي ٿيا. سال 1994 مان سنڌ يونيورسٽي ڄامشورو مان ايم اي اڪانامڪس ڪئي، ۽ ساڳئي يونيورسٽي مان سال 1996 ۾ ايم ايس سي (ميٿاميٽڪس) جي ڊگري حاصل ڪئي. تنهن کان پوءِ سال 2004 ۾ ايس ايس طور گورنمينٽ بوائز هائر سيڪنڊري اسڪول شاهپور چاڪر ۾ اڄ تائين ڪم ڪري رهيا آهن. پاڻ پنهنجي ڊيوٽي جي وقت جا پابند اهن ۽ فارغ وقت ۾ سگا جي لاءِ ڪم ڪندا آهن. سال 2005 ۾ پاڻ سينٽرل ايڪزيڪيوٽو ڪميٽي(سي اي سي) سگا ميمبر ٿيا.
ان وقت سائين پنهنجي ڳوٺ عمر آباد ۾ ڪاري سائي جي چڪاس ۽ ان جي بچاءَ لاءِ ٽڪا لڳرائڻ لاءِ مفت ڪيمپ هڻائي. تنهن کانپوءِ پنهنجي شهر شاهپور چاڪر ۽ ان جي آس پاس جي سورنهن ڳوٺن مهوش ۽ جهانگير صديقي فائونڊيشن جي تعاون سان مفت علاج لاءِ ڪيمپون ۽ دوائون پڻ ڏنيون ويون. ان کان علاوه يوسي شاهپور چاڪر جي اسڪولن۾ 10 هزار ٻارن کي ڪاري سائي جي بچاء جا ٽڪا پڻ لڳرايا. سائين جن 2010 جي مها ٻوڏ دوران امداد لاءِ شاهپور چاڪر ۾ سگا جي طرفان ڪيمپ لڳرائي متاثر خاندانن لاءِ راشن ۽ ڪپڙا، دوائون گڏ ڪري سنڌ جي ان متاثر علائقن ڏانهن موڪليون.
ضلعي سانگھڙ ۾ 2011 جي خطرناڪ برسات کانپوءِ چوپائي مال ۾ وڌندڙ بيماري جنهن ۾ هزارين ڍور مري چڪا هئا ان جي علاج لاءِ سگا جي طرفان ڊاڪٽرن جي ٽيم جوڙي مختلف علائقن ۾ مال کي ويڪسين پڻ ڪرائي، جنهن جي اڳواڻي بـ سائين پاڻ ڪئي.
تعليم جي لحاظ کان سائين جاويد شاهپور چاڪر جي 75 اسڪولن جي سروي ڪرائي جنهن ۾ بند پيل اسڪول، زبون عمارتون، اسڪولن ۾ فرنيچر جي کوٽ استادن جي غير حاضري ۽ ٻيو ڪجھ سروي ۾ شامل هو، جنهن جي رپورٽ ٺاهي تعليم جي اعليٰ عملدارن ڏي روانيون ڪيون.
سال 2015 ۾  سائين شاهپور چاڪر لاءِ سگا پاران روشن تارا اسڪول پڻ منظور ڪرايو ۽ ساڳئي سال روشن تارا اسڪول لاءِ زمين پڻ ورتي جيڪا شاهپور چاڪر جي نيڪ مرد حاجي محمد عالم شر عطيي طور ڏني. ۽ ساڳئي سال روشن تارا  اسڪول شاهپورچاڪر جو ڪم شروع ٿيو جيڪو سال 2016 جي آخر تائين مڪمل ٿيندو. سال 2016 ۾ سائين جاويد انڙ سگا جي مرڪز جا سيڪٽريٽ ايجوڪيشن آهن سال سائين سگا جي اسڪولن لاءِ تعليمي بورڊ لاءِ مختلف گڏجاڻيون ڪري رهيا آهن. سائين هن بورڊ جي حوالي سان ٻڌايو تـ هن تعليمي بورڊ ۾ ڪو بـ روشن تارا اسڪولن جو ملازم نـ هوندو ۽ اهي سڀ مرڪز عهديدارن مان چونڊيا ويندا. جيئن تـ اسڪولن ۾ معياري تعليم ملي سگھي. سائين وڌيڪ ٻڌايو تـ روشن تارا سڪولن جو مقصد اهو آهي تـ سنڌ جي ٻارن کي سنڌي صحيح نموني اچي. آخر ۾ جاويد انڙ چيو تـ منهنجي خواهش آهي تـ پوري سنڌ پڙهيل لکيل هجي ۽ هتان جو هر فرد سکيو ستابو هجي ۽ اهو سڀ ڪجھ علم سان ئي ٿي سگھي ٿو.

  رپورٽر : وسيم احمد      
  ڪلاس : ايم.اي (پريوس)
رول نمبر : 68               
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media & Communication Studies
University of  Sindh

Tuesday, 23 August 2016

مالوند ماڻهن جو مال تي گذران آفتاب احمد

 feature main zaman aen makan zarori hondo ahy.
 Feature reporting based hondo ahy. 
 Twhan jo  file name aen subject line b ghalt ahy,

مالوند ماڻهن جو مال تي گذران  
فيچر 
   
ليکڪ آفتاب احمد
M.A Previous
Roll No. MMC 5
زندگي ته هر انسان جي گذري ويندي آهي ڪن جي سورن جي سيج تي ته ڪن جي گلن جي سيج تي . ڪن کي ته مخمل جا بستر ته ڪن کي سمهڻ جي لاءِ ڇانو ڇپر ئي نه هوندي آهي.پاڪستان جي آبادي جي ڪجهه اڪثريت انهن ماڻهن جي به آهي جيڪي وقت حالات مجبوري، غربت ۽ سهولتن جي نه هجڻ جي ڪري ڪافي تڪليفن جو شڪار آهن ۽ انهن ماڻهن جا خواب و خيال ڪا به حيثيت نه ٿا رکن، ڇو ته اهوماڻهو قدرت جي عنايت ڪيل نعمتن کان گهڻي قدر محروم هوندا آهن ۽ انهن کي سماج ۾ اها حيثيت ۽ مقام نه ٿو ڏنو وڃي ڇو ته اهي ماڻهو تعليم جي زيور کان اڪثر محروم هوندا آهن. پوءِ انهن ماڻهن کي پنهنجي جياپي جو رستو ٻني ٻاري جي کيتي ۽ پالتو جانورن کي پالڻ جو ڪم اختيار ڪيو.
 
انهن سٻاجهڙن ماڻهن جو روزگار ڪاروبار، ڌن ۽ دولت صرف ٻني ٻارو ۽ چوپايو مال هوندو آهي . مالوند ماڻهو ٻني ٻاري جي ڪم ڪار کانپوءِ پنهنجي جانورن جي سار سنڀال ڪندا آهن، ڪجهه ته اهڙا به آهن جيڪي تعليم کي بيڪار سمجهي پنهنجن ننڍڙن ٻارن کي مال چارڻ جي ڪم سان لڳائي ڇڏيندا آهن جنهن کي سنڌي ٻولي ۾ ڌنار يا مالوند سڏيو ويندو آهي. اڪثر ڪري ٻهراڙين ۾ مالوند ماڻهو مال کي چارڻ جي سانگي پنهنجي ڳوٺن کان پري پري تائين سانگ ڪري جڳهه جڳهه جهوپڙا اڏي مهينن جا مهينا رهندا آهن انهن ماڻهن کي مختلف زبانن ۾ مختلف لفظن سان سڏيو ويندو آهي جيئن ته لاڏڙائو، مال چارڻ وارا ۽ خانه بدوش وغيره وغيره سڏيو ويندو آهي اهي ڪٿي به ۽ ڪنهن به رڻ پٽ بربيگان ۾ پنهنجا جهوپڙا اڏي ويهي رهندا آهن جتي ضرورت حيات جي ڪابه گهربل شيءِ ميسر يا موجود نه هوندي آهي ايتري قدر جو قدرت جي عام طرح ۽ آسان طرح سان ملندڙ نعمت پاڻي جو ميسر نه هوندو آهي پر اهي ماڻهو انهن سهولتن جي پرواهه ڪندي بغير همت ۽ حوصلن جا خيما کوڙي ويهي رهندا آهن اهي ماڻهو جياپي لاءِ انهن جانورن مان ڪجهه جانور وڪڻي کاڌ خوراڪ جي لاءِ ضروري شيون ۽ صحت جو سامان خريد ڪندا آهن. پيئڻ جو پاڻي ۽ استعمال جي لاءِ پاڻي ڪلهن گڏهن ۽ اٺن تي خلين ۾ ڀري کڻي ايندا آهن انهن ماڻهن کي مال ۽ پنهنجي ذاتي زندگي کانسواءِ ڪنهن به شيءِ جي خبر نه هوندي آهي نه دنياوي سهولتن جي ۽ نه وري ڪم ايندڙ سهولتن جي مشينري جي نه ئي دنيا جي حالات ۽ نشريات جي خبر هوندي آهي مطلب ته انهن ماڻهو جو روزگار زندگي صرف و صرف چوپايو مال هوندو آهي ۽ انهن جي خوابن خيالن ۽ اميدن جي ڪا به منزل نه هوندي آهي اهي ماڻهو پنهنجي زندگي رات ۽ ڏينهن محنت ڪري صرف ۽ صرف پنهنجو ۽ پنهنجن ٻچن جو پيٽ پالڻ ۾ گذاري ڇڏيندا آهن. مالوند ماڻهو پنهنجي گهرن ڏانهن تڏهن واپس موٽندا آهن جڏهن انهن جي علاقن ۾ بارش ٿيندي آهي ۽ ساوا گاهه ڦٽندا آهن تڏهن هو پنهنجي پيارن ڏي  واپس موٽندا آهن انهن ماروئڙن جي لاءِ شاهه صاحب فرمايو آهي ته

اڄ پڻ اتر پار ڏي ڪڪريون ٿيون ڪاريون
وسي ٿو وڏ ڦڙو ٽهڪن ٿيون ٽاريون
ڀڄندنديون ڀٽاريون وري وٿاڻي آيون

Monday, 22 August 2016

مہناز صابر: عید معاشی سرگرمیوں کا محور

A bit deviation from outline. ur outline was: معاشی سرگرمیوں کا محور
عیدالاضحی: مذہبی تہوار ہی نہیں ، معاشی سرگرمیوں کا محور بھی
Mehnaz Sabir
نام: مہناز صابر
رول نمبر: 2K16/MC/36 MA prev
کٹیگری : فیچر

مسلم معاشرے میں عیدالاضحی کو ایک خاص حیثیت اور مقام حاصل ہے ۔ عیدالفطر کے بعد یہ دوسرا بڑااسلامی تہوار ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کے دنوں میں قربانی کرتے ہیں ۔ قربانی کا گوشت رشتہ دا روں، دوست احباب ، پڑوسیوں کے علاوہ غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ معاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ، جو عیدالاضحی کو ایک مذہبی فریضے کی بجائے خوب ڈٹ کر کھانے کا موقع سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگ حکمِ الٰہی کے مطابق قربانی تو کرتے ہیں لیکن سارا گوشت اپنے ڈیپ فریزر میں ذخیرہ کرلیتے ہیں ۔
ٰ
ٰ عیدالاضحی پر قربانی کا جانور گھر میں آتے ہی بچوں کی عید ہوجاتی ہے بلکہ بہت سے بچے تو اپنی پسند کا جانور لاتے ہیں پھرا سکو خوب سجاتے ہیں ،گھماتے پھراتے ہیں اور اپنی قربانی کے جانورکے خوب نازنخرے اٹھاتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی شرارتی گائے یا بکرا بچوں سے رسّی چھڑوا کر بھاگ جاتا ہے اور پھر سارے بچے اور بڑے اسکو پکڑنے کے لیے اسکے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں ۔وہ بھی بڑے مزے کا منظر ہوتا ہے ۔اور پھر آخرکار ہانپتے کانپتے وہ گائے یا بکرے کو پکڑنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں ۔

بالآخر عید کا دن آجاتا ہے اور لوگ سنّتِ ابراہیمی کی آدائیگی کرتے ہیں اور پھر دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اور ہر گھر میں مزے مزے کے کھانے بنائے جاتے ہیں ۔ نوجوان طبقے اور بچوں کا رجحان بار بی کیو کی جانب ہوتا ہے اور بار بی کیو کر کے عید کا مزہ دوبالا کرتے ہیں ۔ اور کئی دن تک دعوتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔

عیدالاضحی ایک ایسی معاشی سرگرمی ہے جس کے اثرات معاشرے میں دور تک جاتے ہیں اسلام امراء اور صاحبِ ثروت افراد پر ایسے فرائض عائد کرتا ہے جنکے ادائیگی سے گردِش زر کے راستے کھلتے ہیں اور دولت امراء سے غریب افراد کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔ اگر صرف پاکستان کے حوالے سے بھی دیکھا جائے توعیدالاضحی ٰ کے محض تین دنوں میں ہونے والی معاشی سرگرمیاں تقریباً چھ ماہ یا پورے سا ل پر محیط ہوتی ہیں اس کی ابتداء فارم ہاوسز یا دیہی علاقوں میں قربانی کی نیت سے پالے جانے والے جانوروں کی پرورش سے ہوتی ہے ۔ یہ سلسلہ تقریباً سارا سال جاری رہتا ہے

عیدالاضحی بعض صنعتوں ، خصوصاً چمڑے کی صنعت کو بھرپور منافع کمانے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ بقول چمڑے کے تاجروں کہ’’یہ ہمارا سیزن ہوتا ہے ۔ ہم سال بھر کی اپنی ضروریات کا تقریباً
25 فیصد خام مال اس تہوار کے موقعے پر حاصل کرتے ہیں ۔

چمڑے کی صنعت کے بعد زکر آتا ہے کراچی کی مویشی منڈی کا ، جو ہر سال سپر ہائی وے پر فوج کی نگرانی میں لگتی ہے۔ اس کا شمار دنیا کی وسیع ترین مویشی منڈیوں میں ہوتا ہے ۔ اس کا ٹینڈر کروڑوں روپے میں ہوتا ہے ذیلی ٹھیکے اسکے علاوہ ہیں ۔ جن میں پارکنگ ، داخلہ فیس، پینے کا پانی ، چائے ، کھانے کے ہوٹل، چارے اور بھوسے کے اسٹالوں کے ٹھیکے قابلِ ذکر ہیں ۔ یہ منڈی تقریباً بیس سے پچیس دن تک لاکھوں افراد کی روزی کا ذریعہ بنی رہتی ہے ۔

جب بلدیاتی ادارے والوں سے پوچھا گیا کہ عیدالاضحی کے دنوں میں کام بہت ذیادہ ہوتا ہے آپکے کارکن کم پڑتے ہونگے تو انہوں نے بتایا کہ ’’ عیدالاضحی کے دنوں میں کام کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر یومیہ اجرت پر سینٹری ورکرز بھرتی کرتے ہیں اور کوڑا اٹھانے والیگاڑیوں کی قلت کے باعث کرائے پر گاڑیاں حاصل کرتے ہیں ۔

اب ذرا ایک دوسرے پہلو کو دیکھیے!عید قرباں کا موقع الیکٹرونکس کے تاجروں کیلیے خوشی کا پیغام لیکر آتا ہے ۔ الیکٹرونکس مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ’ہم سارا سال میں اتنا نہیں کماتے، جتنا عیدالاضحی کی موقعے پر کما لیتے ہیں ۔ ان دنوں فریج اور ڈیپ فریزر ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتے ہیں ۔

عیدالاضحی پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پورے شہر کو کھانے کا بخار چڑھ گیا ہے ۔ بیکری اور ریستورانوں میں سالم رانیں بھننے یا ہنٹر بیف بنانے کاجو معاوضہ لیتے ہیں وہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اچھا بھلا انسان چکرا کر رہ جائے ۔ لیکن زبان کے چٹخارے پر یقین رکھنے والے کسی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ لہٰذا ان جگہوں پر وہ رش دیکھنے میں آتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔


عیدالاضحی ان بیچاروں کے لیے بھی روزگار کا ذریعہ بن جاتی ہے جو کچرے کے ڈھیر سے کارآمد چیزیں چننے کا کام کرتے ہیں ۔ ایک طبقہ ان دنوں کوڑے کے ڈھیر پر پھینکے جانے والی آلائشوں سے چربی نکال کر بیچنے کا دھندا کرتا ہے خریدنے والے اس چربی سے گھی بنا کر بازارمیں فروخت کرتے ہیں جو سموسوں، نمکو اور پکوڑے تلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔،

تزمین رحمان پروفائل

This is not profile. Its article. How u term it as profile?

تزمین رحمان

پروفائل : ایم -اے پرائیوٹ
13 رول نمبر:

 حیدرآبا د کا ادبی ماحول
ادب کسی بھی زبان کسی بھی قوم اور کسی بھی خط زمین کا وہ سرمایہ ہوتا ہے جس میں متعلقہ زبان و ادب کے ار تقاکی کہانی، مزاج و ماحول کے بڑھنے اور بدلنے کا عمل اور فکرو نظریہ کی ترویج کا سامان اسطرح محفوظ کیا جاتا ہے اس میں روج عصر کا عکس جھلکتا ہوا محسوس ہو اس لیئے ادب کو زبان کی اساس اور فکری و تہذیبی ارتقاکا ترجمان بھی کہا جاتا ہے مادی و اقتصادی اورتنکی ترقی اگر کسی قوم کی خوشحالی کی کہانی بیان کرنے کا سبب قرار دی جا سکتی ہے تو ادب کو فکری ، ذہنی ، نظری اور روحانی ارتقا کی تمشیلی داستان کہا جاسکتا ہے بلکہ بُرا ادب تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں نظریات کے ساتھ ساتھ مادی انقلابات سماجی رجحانات اور اُن سے پیدا ہونے والی صورتے حال کا بیان ہو اس لیئے کے ادب کا مرکز انسان ہے اور دنیا کی عام ترقیات کا محور بھی انسان ہی ہے ۔
ان حوالوں سے جب ہم حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہاں کے ادب میں ان تمام تقاضوں کو بڑی حد تک پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے تجارتی ، اقتصادی، زرعی اور سیاسی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اس قدر اہمیت رکھنے والے اس شہر میں تخلیق ہونے والا ادب ان تمام خصوصیات کی عکسی تصویر بن کر ابھرا ہے ۔
تشکیل پاکستان کی صور ت حال ادب کے حوالے سے زیادہ مفید اور حوصلہ افزا رخ اختیار کر گئی تقسیم کی رد عمل کے طور پر لکھنے والوں نے جو تبد یلیاں محسوس کیں ان کا اثر تخلیق ہونے والا ادب پر بھی گہرا پڑا تارکین وطن کی زیادہ تر کھپت سندھ میں ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر ادبی ہنگاموں اور تخلیق عمل کا مضبوط اور قابلِ ذکر مرکز بن گیا۔
تقسیم سے قبل جو تنظیمیں ترویح ادب کیلئے کام کر رہی تھیں وہ تو بہر حال اپنا کردار نباہ رہی تھیں لیکن کچھ اور تنطیمیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ قیام عمل میں آئیں ان میں کچھ تنظیمیں درج ذیل ہیں۔
بزمِ خلیل:-
یہ بزم۱۹۴۸ میں قائم ہوئی اس کے بانی ڈاکٹر شیخ محمد ابراھیم خلیل تھے اور انہی کے نام سے یہ بزم رکھی گئی اس تنظیم کے تحت فارسی ، سندھی اور اردو مشاعروں کا آغاز ہوا۔۲نومبر ۱۹۸۲ کو ڈاکٹر شیخ محمد ابراھیم خلیل کے وفات پانے کے ساتھ ہی بزم خلیل ختم ہو گئی ۔
بز مِ معیار سخن:-
بزم معیار سخن ۱۴ اگست ۱۹۵۱ میں قائم ہوئی نمایاں عہددار میں نگراں :- پیرایرانی صاحب ، صدر :-سید محمد صادق صادق علی صادق دہلوی صاحب ، معتمر:- شفیع اللہ خان برگ یوسفی۔اس تنظیم میں شروع سے طرحی مشاعروں کو اہمیت دی ہے پیرایرانی صاحب کے زیر سرپرستی نکلنے والے رسالے "المصطفے"میں ہرمہینہ ان مشاعروں کی رو داد اور اگلے شاعروں کا اعلان شائع ہوا کرتا تھا۔
بزمِ صادق-:
بزم صادق کا قیام ۱۹۵۲ میں عمل میں آیا سرپرست سید صادق علی صادق دہلوی ، صدر-: اجمل حسین ، نائب صدر شبنمبدایونی۔کار کردگی کے لحاظ سے یہ تنظیم طرحی مشاعروں کی حد تک محدود رہی غیر طرحی مشاعر ے کرنا اس بزم کا شعار نہیں دیا ۔
یاد گار مشاعرہ کمیٹی :-
یہ مشاعرہ کمیٹی کمشنر حیدرآباد مرحوم نیاز احمد ، جناب مرزا عابد عباس اور جناب حمایت علی شاعر صاحب جیسی ہستیوں کی کوششوں سے ۱۹۵۹ میں قائم ہوئی آٹھ سال تک پابندی سے مشاعرہ منعقد کرتی رہی لیکن پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا لیکن اس کا بند ہو جانا سب ہی نے محسوس کیا آخر احساس کے زندہ رہنے کی وجہ سے چند ہستیوں کے تعاون اور اشتراک سے ۱۹۸۱ میں ان مشاعروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا یہ مشاعرے شروع ہی سے سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتے تھے اور اب تک ہور رہے ہیں ان مشاعروں میں نہ صرف پورے پاکستان کے نمائندے اور صفِ اول کے شعرا شریک ہوتے ہیں بلکہ حالات سازگار ہونے پر ہندوستان کے شعر ا کو بھی دعوت سخن دی جاتی ہے ۔
اناں جمن ( اربی و ثقافتی ادارہٌ):-
۱۹۶ میں اسکا قیام عمل میں آیا صدر-:خالد وہاب نائب صدر-:کو کب جمیل ، جنرل سیکریٹری : ارشد رضا ہیں۔اس انجمن کے تحت باقائدگی کے ساتھ ہر ہفتہ روزنامہ "بشارت کے دفتر میں تنفیدی نشت ہو ا کرتی تھی اس کے علاوہ شام افسانہ ، یومِ منٹو ، اور ادیب اور قومی مسائل کے عنوان سے ایک میوزیم بھی منعقد ہوا اس میوزیم کی صورت حال ڈاکٹر رضی الدین نے کی تھی اور مہمان خصوصی فیض احمد فیض تھے احمد ندیم قاسمی نے بھی اس میوزیم میں اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔
مکتبہ آگہی :-
ڈاکٹر احمد بشیر ، ڈاکٹر احسن فاروقی ، ڈاکٹر الیاس عشقی ، ڈاکٹر مبارک علی خان، جناب عطالرحمن ، ڈاکٹر حسن منظر کے علاوہ شہر کی اور اہم شخصیات ۱۹۶ سے دیا ل داس قلب میں حیدرآباد میں شام کے وقت ہفتہ میں ایک بار ضرور مل بیٹھنے اور گفت و شنیو کے ذریعہ ترسیل علم اور حصولِ علم کا اہتمام ضرور کیا کرتے تھے یہی بیٹھک آگے چل کر مکتبہ آگہی کے نام سے یاد کی جانے لگی۔
بزمِ فروغ ادب:-
۱۹۶۵ میں فروغ ادب حیدرآباد کا قیام عمل میں آیا اس کی کار کر دگی میں نہ صرف طرحی اور غیر طرحی مشاعر ے شامل ہیں بلکہ وقتاَ فوقتا منا عتوں اور محفل مسالموں کے انعقاد کے علاوہ تنقیدی نشستیں ، تغر یتی جلسے اور خاص موقعوں پر خاص پرو گرام شامل ہیں۔
جلیسانِ ادب :-
جلیسانِ ادب کا قیام ۱۹۷۸ میں ان حاضرات کی سرکر دگی میں عمل میں آیا صدر پر و فیسر حبیب ارشد، معقمد عمومی : قمر مشتاق ، معقد نشرواشاعت :عتیق جیلانی یہ نتظیم اپنی کار کردگی کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور متنوع پروگراموں کا انعقاد اس کاز یورہے مشاعروں ، کتابوں کی تعارفی تقاریب اہم ادبی شخصیات کے اعزاز میں تستوں کا اتعقاد اس کی کارکردگی میں شامل ہیں وہ تنطیمیں جن کا احوال بیان نہیں کیا جا سکا ان کے نام یہ ہیں۔بزمِ غزل (۱۹۶۲)
بزمِ عرفان (۱۹۶۲)
کاروانِ ادب (۱۹۶۴)
بزمِ غالب (۱۹۶۴)
بزمِ شعرو ادب (۱۹۶۵)
بزمِ تخلیق (۱۹۶۸)
خیابانِ ادب (۱۹۷۵)
مجلس اقبال (۱۹۷۶)
شعاعِِ ادب (۱۹۷۹)
ایوانِ ادب (۱۹۸۰)
محفلِ ادب (۱۹۸۲)
انجمنِ صرف (۱۹۸۳)
۱۹۸۳ تک وجود میں آنے والی ادبی تنظیمیں اور ان کی کارکردگی کا ایک جائزہ نظر نواز ہوا۔ اب ۱۹۸۳ کے بعد سے اب تک کی کچھ تنظیموں کا ذکر اجمالاً بیان ہوتا ہے ۔
رابطہ :۔
اس ادبی تنظیم کے کرتا دھرتا جناب امین الدین جالندھری ہیں۔ باقی لوگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ اس ادبی تنظیم نے ذیادہ تر تنقیدی نشستیں بلا تعطل جاری ہیں ۔ جو عشرت علی خان کے گھر پر منعقد ہوتی ہیں۔تنقیدی نشستوں کے علاوہ کتابوں کی تقاریب رو نمائی شخصیات کے ساتھ شامیں منانے کے علاوہ کتابوں کی اشاعتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
زینہ:۔
ساجد رضوی اور پروفیسر مرزا سلیم کی کوششوں سے کئی خوبصورت اور یادگار ادبی تقارعب اس شہر کو دیں، لیکن یہ تنظیم چند زینے چڑھنے کے بعد اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اس وقت غیر متحرک ہے۔
ستارے :۔
شاکر جمال اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے گاہے بہ گاہے مختلف المنوع ادبی پروگراموں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی سست رفتاری کے ساتھ یہ تنظیم زندہ ہے۔شمع ادب :۔
نیر صدیقی اس تنظیم کے روح و رواں ہیں ۔یہ تنظیم سوتی جاگتی کیفیت میں رہتی ہے۔ جب دل چاہا کوئی مشاعرہ یا ادبی ایوارڈ سے ادبی شخصیات کو نوازدیا اس کے بعد پھر لمبی نیند۔
سرمایا شعر و ادب:۔
ایک طرح سے عباس علی عباس علی عباس کی یہ ادبی بیٹھک ہے جو وہ مہینوں ، برسوں میں اپنے گھر پر سجا لیتے ہیں ۔
بزمِ اخبار قابل: -
شاہد نظامی پانچ سات شاعروں کے ٹولے کو لیکر شعری نشست اپنے گھر پر جب جی چاہتا ہے رکھ لیتے ہیں ۔پرانی تنظیموں میں سے بزم فروغِ ادب ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے قیام لے لے کر اب تک تو اثر کے ساتھ مشاعروں اور تعزیتی اجلاس کا انعقاد کر رہی ہے۔
موجودہ ادبی صورتحال: -
حیدر آباد کی موجودہ ادبی صورتحال ماضی کے مقابلے کی طرح بھی خوش کن نہیں ہے ۔ اچھے نثر نگاروں خاص طور پر اضانوی ادب کے لحاظ سے تو یہ شہر بنجر ہے۔ دور دور تک کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا ۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں عبدالقادر جو نیجو اور نور الہد اشاہ کے حیدر آباد کے نام کو ملکی سطح تک پہنچایا تھا ۔ کچھ عرصے سے یہ دو نام بھی گمشدہ ہوگئے ہیں ۔ البتہ مشاعروں کی ایک فوج اس شہر کی شعری اور ادبی محفلوں کو رونق بخشے ہوئے ہے ۔ لیکن عام آدمی کے لیئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کتنے حقیقی شاعر ہیں اور کتنے محض دکھاوے کے شاعر ہیں شاعری میں بھی ایک نام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہنچایا جاتا ہے اور وہ ہے پروفیسر عنایت علی خاں لیکن ان کی شہرت بھی مزاحیہ شاعری کی ہے ۔گاہے گاہے کچھ ادبی تنظیمیں رو کھے پھیکے ادبی پروگرام منعقد کرلیتی ہیں کچھ ادبی روق رکھنے والوں کے لیئے کچھ دیر کے لئے ادبی روق کا ساماں فراہم کردیتی ہیں ۔ اس کے بعد مستقل سناٹا ہے۔
اس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں ۔ ادبی مطالعہ اب لوگوں کیلئے اپنی کشش کھو چکا ہے ۔ تربیت کرنے والے اور خود سے آگے بڑھ کر سیکھنے والے اپنے اپنے دائرے میں قید ہیں ۔ حیدر آباد کو کراچی شروع ہی سے نگل رہا ہے ۔ اس سے بھی حیدر آباد کی ادبی فضا کو نقصان ہوا ہے ۔ جو بڑا نام دنیا سے رخصت ہوا ہے ۔ اس کی جگہ لینے دوسرا نہیں آیا ۔ جو دنیا میں آیا ہے ۔ اسے ایک دن جانا ہے ۔ یہ قدرتی عمل ہے ۔ اس پر کسی کا اختیار نہیں ۔ مگر جانے ایسا ہی سناٹا پھیلتا ہے جو آج حیدر آبادکے ادبی ماحول پر چھایا ہوا ہے ۔ وقت کے سفرمیں ایسادوار بھی آتے رہے ہیں ۔ ہمیں اچھے کی امید کو چھوڑنا نہیں چاہئے ۔

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر ؔ
غم نہ کر عمر پڑی ہے ابھی

حیدرآباد میں گندگی اسکا بھی علاج ہو شاہ رخ شیخ

ٓٓٓShahRukh Shaikh
آرٹیکل
تحریر۔۔۔۔شاہ رخ شیخ
رول نمبر ۷۱
ایم ۔ای۔پریویس
حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علاج ہو
پاکستان کا چھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں۔
جہاں ہر روزپانچ لاکھ کلو سے بھی زیادہ کچرا پھیکا جاتا ہیں۔
حیدرآباد میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری کچرا جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہیں۔حیدرآباد میں با کمال افسران کی لا جواب کار کردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑدیئے ہیں کیونکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت و صفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دو بھر کر دیا ہے جہاں افسران لمبی تان کے سو رہے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسری جانب حلقے کے منتخب نمائیندے صبح و شام عوام کی خدمت کرنے والے دعویدار کہیں نظر نہیں آتے۔
شہر حیدرآباد میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہوگی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نہ ممکن ہو گیا ہے۔بلدیہ حیدرآباد نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تا حال بدتر ہے جس پر ذمہ داران نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے لگے ڈھیر اٹھانے میں نا کام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں تو سیع کردی گئی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ حیدرآباد سٹی کا علاقہ بھی با اثر شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو ۲۲۵ٹن کچرا ۶۹۰ روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔
حیدرآباد میں گندگی کی بدتر صورتحال کے باوجود پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے اور صفائی پر ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہو رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہیں۔ دوسری جانب لیاقت کالونی،پنجرہ پول،لیبرٹی مارکیٹ،ہیراباد،جیل روڈ،کلاتھ مارکیٹ،ریلوے اسٹیشن جبکہ ٹاؤن حسین آباد،گدو،لطیف آباد ۱۲،۱۱،۱۰،۸ اور قاسم آباد، گلشن سجاد میں خاکروب تسلی سے کام نہیں کر رہے بلکہ حاضری لگانے کے بعد فیلڈ میں جانے کے بجائے گھروں کو چلے جاتے ہیں عمر رسیدہ اور خواتین خاکروب کام کرنے کے بجائے گپ شپ میں وقت گزار دیتے ہیں عوام سینیٹری ورکرز کو معاوضہ دے کر گٹر کی صفائی کرا رہے ہیں بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہیں جس کی بدولت شہریوں میں بیماریاں پھیل رہی ہے بلدیہ اعلیٰ حیدرآبادکے فرض شناس افسران کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو درپیش بنیادی مسائل کے حل کیلئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لائیں اور عوامی شکایات کا فوری طور پر ازالہ کریں اس کے علاوہ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس اور غیر قانونی تر قیوں اور دیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدے سے فارغ کر کے صاف اور شفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔


آپکا یہ آرٹیکل 488 الفاظ ہیں۔ کم از کم 600 لفاظ چاہئیں۔ 
”شہر میں“ سے کیا مراد ہے؟ کونسا شہر؟ 
 اس میں نہ ُکا نام لکھا ہے اور نہ رول نمبر اور کلاس۔ ان چیزوں کے لئے بار بار ہدایت کی گئی تھی اور فیس بک گروپ پر بھی یہ یاددہانی کرائی گئی تھی۔ 
 اس لحاظ سے آپ کا یہ آرٹیکل مسترد ہونے کے دائرے میں آتا ہے۔ 

شاہ رخ ایم اے پریوئس
شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی اسکا بھی علاج ہو

پاکستان کا چھٹا اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد جس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہیں۔
جہاں ہر روزپانچ لاکھ کلو سے بھی زیادہ کچرا پھیکا جاتا ہیں۔
شہر میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر علاقوں میں شہری کچرا جلا کر ختم کرتے نظر آتے ہیں جس سے ماحول میں آلودگی کے ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہیں۔حیدرآباد میں با کمال افسران کی لا جواب کار کردگی نے عوام کے منہ کھولے چھوڑدیئے ہیں کیونکہ عوامی خدمت کیلئے موجود افسران نہ تو دفاتر میں میسر ہیں اور نہ ہی شہر میں صحت و صفائی کے انتظامات کرتے نظر آتے ہیں۔حیدرآباد کے شہری صحت و صفائی کی سہولیات کو ترس گئے ہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کے پانی نے جینا دو بھر کر دیا ہے مگر صبح و شام عوام کی خدمت کرنے والے دعوےدار کہیں نظر نہیں آتے۔
شہر میں شاید ہی کوئی شاہراہ ہوگی جہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ ملیں جگہ جگہ گندگی اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے گاڑیوں کا چلنا مشکل اور پیدل چلنا نہ ممکن ہو گیا ہے۔بلدیہ حیدرآباد نے شہر سے کچرا اٹھانے کے معاہدے میں ناکامی کے باوجود کمپنی کے ٹھیکے اور علاقے میں اضافہ کردیا ہے تاہم شہر میں صفائی کی صورتحال تا حال ابتر ہے جس پر ذمہ داران نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے جا بجا لگے ڈھیر اٹھانے میں نا کام پرائیوٹ کمپنی کے معاہدے میں تو سیع کردی ہے جبکہ لطیف آباد کے ساتھ سٹی کا علاقہ بھی با اثر شخصیت کے اشاروں پر مذکورہ کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔شہر کے علاقے لطیف آباد میں پرائیوٹ کمپنی کو ۵۲۲ٹن کچرا ۰۹۶ روپے فی ٹن کے حساب سے گذشتہ سال دیا گیا تھا مگر کمپنی کی جانب سے رقم کی وصولی کے باوجود کچرا اٹھانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔
شہر میں گندگی کی ابتر صورتحال کے باوجود با اثر سیا سی شخصیت کے اشاروں پر کمپنی کے معاہدے میں توسیع کے ساتھ سرکاری گاڑیاں بھی کچرا اٹھانے کیلئے مہیا کردی گئی ہیں مگر معاہدے پر عمل درآمد کیلئے حکام بالا خاموش ہیں۔حیدرآباد میں کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا گندہ پانی شہریوں کے لئے عذاب بن گیا ہے اور صفائی پر ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کرپشن کی نظر ہو رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہیں۔بلدیاتی اداروں میں سینٹری ورکرز سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود شہر میں صفائی کی خراب صورتحال ہیں۔


حکومت سندھ کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد میں او۔پی۔ایس اور غیر قانونی تر قیوں اور دیگر محکموں سے آئے ہوئے افسران کو عہدے سے فارغ کر کے صاف اور شفاف طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر افسران کو بھرتی کرے جو بلدیہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلاسکے کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر حیدرآباد کچرے کے ڈھیر تلے دب جائے۔

ہمارا معاشرہ آج کا میڈیا - محمد عمیر

Plz follow outline. It is not according to outline


Muhammad Umair
نام : محمد عمیر
کلاس : ایم اے
رول نمبر : ۴۲
 ہمارا معاشرہ آج کا میڈیا
ارٹیکل
دنیا نے اُنسیویں صدی سے بے پناہ ترقی کی اور اس دور جدیدمیں ریڈیو ، ٹی وی ، اور اخبارات ، کا بڑھتا ہوا سمندر نظر آیا جوانسانی زندگی میں جلد اور اہم تبد یلیاں لانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں مسائل موجود ہیں جو دیکھنے میں تو بہت چھو ٹے نظر آتے ہیں پر ان پر غوروفکر کر نا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہمارے ملک کی زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔پر میڈیا ان کے مسائلوں کو ہائی لائٹ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے ۔ چھو ٹے قصبوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کو میڈیا اتنی کوریج نہیں دیتا ۔جتنا کہ سیا ست اور بڑے شہروں کی خبروں اور ان پر مبنی پروگراموں کو پیش کرنے میں دیتا ہے۔
اسلام آباد ، لاہو ،کراچی ،سے چھو ٹے واقعات کی خبریں فوری طورپر بریکنگ نیوز بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔جبکہ دیہات کے اہم مسئلوں میں سے پینے کا صاف پانی، صحت ، تعلیم ، خوراک ، جیسے بنیادی مسائل اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں جن کا ز کر رسمی طور پر خبروں کاآخری حصہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔صاحب مال لوگ ایسی خبر شا ئع ہونے پر نہ خوش ہوتے ہیں ۔ جن سے ان کی عزت میں کمی آئے اور ان کی ایسی چھوٹی بات کو زیادہ کالم میں شائع کیا جاتاہے تاکہ عزت میں مزید اضافہ ہو سکے۔جبکہ غربت سے مرنے والوں کی آواز صفحات کے آخری حصوں میں نظر آتی ہیں۔
سال میں چندخاص دنوں کے علاوہ آج ہمارے میڈیا پر بہت سے ٹاک شوز، حالات حاضرہ ، ہوں یا کو ئی دلچسی کے پروگرام جن کی زینت صاحب مال اور وی، ائی ، پی ہوتے ہیں ۔ اور دوسری طرف اپنے ملک کی کلچر سازی کرنے کے بجائے دوسروں کے کلچر سازی کا مواد لے کر پاکستانی عوام کو مختلف پروگراموں اور دلچسپ طریقوں سے کھلاتا ہے۔ایسے پروگرام،ڈرامے ہم دیکھ نہیں رہے ہو تے بلکہ دیکھائے جاتے ہیں ۔آج ہمار ا میڈیا خبروں کو بریکنگ نیوز بنا کر فوری طور پر پیش کرنے میں سر گرم ہے۔ کیاایسا کرنے سے لوگوں کے مسائل حل اور امن قائم ہو سکتا ہے اگر ہاں تو ایسا اب تک کیوں نہیں ہو سکا ؟
اس ملک کے عوام غربت ، فاقہ کشی کا شکار ہو کرجسم وجاں کا رشتہ قائم رکھنے سے بھی قاصر ہوتے جا رہے ہیں ۔اور میڈیا پر ہر ہر منٹ بعد جس طرح سے سامراجی برانڈکی پراڈکٹ بیچنے کے لئے زہن سازی کا عمل جاری ہے ۔جو مضر صحت ،مشروبات و دیگر ملاوٹ زدہ اشیاء کے نقصانات کو فوائد میں گنوانے کے لیے مصروف ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں جو دیکھایا جارہا ہے اس کا اثر ہم پر نہ پڑا ہوآج ہمارے گھروں میں پکوان سے لے کر باتھ سوپ تک ہر وہ چیز استعمال ہوتی ہے جس کی زہن سازی ٹی وی پر کی جاتی ہے ۔ (۲)
سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ ! ! یہ بات معلوم ہو نے کے باوجود کہ کسی بھی چیز کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے پہلے اس کی بنیاد وں کو مضبوط بنایا جائے۔آج ہمارا میڈیا حقیقی معنوں میںآزادی کا مقصد کلچر ، ثقافت ، رنگونسل ، کو یکساں حقوق اور معاشرے میں امن بھائی چارے کی فزاکو قائم کرنے کی خاص کو شش کرتے ہوئے نظر نہیں آرہا ۔ جبکہ میڈیا کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت یہ بتا رہا ہے کہ ہماری علمیت ، تربیت ، اور زندگیوں کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی کمی ضروررہ گئی ہے جس سے یہ صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے کہ نسلی لسانی طور پر آپس میں نفرتے جنم لینے لگی ہیں جوکہ کسی بھی ملک کی جانی ، مالی ، معاشی ، اقتصادی ، اور تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔
نسلی لسانی کی بنا پر نفرتوں کی مثالے ہم گلی محلوں سے با آسانی لے سکتے ہیں ۔ ہمارے میڈیا کو ایسی نفرتوں کو ختم کرنے ملک سے محبت کرنے کا جذبہ اور قومیت ، تہذیب ، و ثقافت ، پرستی میں غیر ضروری مرض کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چا ہیے جس میں ملک و قوم کو ایک کرنے کے لیے یکطرفہ اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گاتاکہ ایک عام آدمی کے دل میں میڈیا کے لیے اچھی سوچ پیدا ہو سکے۔حکومت ، عدلیہ ، انتطامیہ ، کے بعد صحافت کا چوتھا درجہ آتا ہے جس کا مقصد عوالناس کو سچ اور حقائق کے ساتھ روزانہ کی بنیاد و ں پر مواد پیش کرنا ہے جو کہ اپنی ایمانداری اور سچائی سے نا صرف اپنا بلکہ ملک و قوم میں ایک دوسرے کے دلوں میں محبت پیدا کرنے میں بھر پورکردار ادا کر سکتا ہے۔معاف کی جیئے اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والی نسلوں کے لیے بہت سارے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

سو شل میڈیااْمید کی کِرن حور خان

حور خان
رول نمبر: ۷۲
ایم۔اے (پریوئس)
ماس میڈیا دیپارٹمنٹ
 آرٹیکل

سو شل میڈیااْمید کی کِرن
سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِرائے تبادلہ خیال تصویر اور ویڈیو شئیر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی مقبو لیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔کئی مرتبہ نیوز چینلز بھی وہ معلومات ہم تک نہیں پہنچاتے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ جا تی ہے جیسے کہ کشمیر اور برما کے حالات و واقعات ،قرآن و حدیث کی شئیرنگ اور عقیدے کی درستگی کا کام بھی کیا جا سکتا ہے۔تعلیم،تفریح اور معا شرے کو متحرک بنانے کے ساتھ ساتھ مشکل میں مدد کے امکان کا بھی سبب ہے سو شل میڈیا کی ایجاد اور اسکی طوفانی رفتارسے یہ بات واضع ہوگئی کہ دنیا اب گول نہیں رہی بلکہ چپٹی ہو گئی ہے۔ملکون اور براعظموں کے درمیان فاصلے برقرار نہیں رہے امریکی اسٹوروں پے بکنے والا سامان چین میں بنا یا جا رہا ہے شکاگو میں بیٹھ کے جہاز کی سیٹ کنفرم کر نے کے لئے آپ فون ملاتے ہیں تو جواب بھارت کے کسی شہر میں بنائے گئے کال سینٹر سے دیا جاتا ہے۔مختلف ویب سائیٹس آن لائن شا پنگ کے لئے بنائی گئیں جن میں سب سے ذیادہ مقبولیت دراز آن لائن شاپنگ ویب کو حاصل ہوئی جس کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ہر طرح کے آئٹمز تک رسائی حصل کر سکتے ہیں۔گھر گہرستی ہو یا تعلیم،دینی مسعلے ہوں یا دنیاوی، بزنس ہو یا نوکری ہر عنوان پے سوشل میڈیا کا بہترین کردار ہے کسی انسان کی خاصیتوں کو دنیا کے روبرو کرنااور شہرت کا حامل بننا بھی سوشل میڈیا ہی کی عنایت ہے
یہ میڈیا ہی کا فیض ہے کہ پاکستان کی کم و بیش ۵۹ فیصد خواتین اور لگ بھگ ایک سو پچانوے مرد بفضل تعالٰی شاعر،ادیب،دانشور اور خصوصاً کالم نویس ہیں یہ میڈیا ہی کا احسان ہے کہ یس نے ہر خاصو عام کو کالم نویس بنا ڈالا۔آج میں تقریباً ستانوے فیسد افراد انٹر نیٹ سے آشنا ہیں یا باقاعدہ طور سے اسکا استعمال کر تے ہیں اس ٹیکنالوجی کو روز بروز جدید بنایا جا رہا ہے دنوں میں ہی نہیں بلکہ گھنٹوں میں ہر ایپلیکیشن میں کو ئی نہ کو ئی اپ ڈیٹ ملتی ہے یا ایکسپلورائزیشن ہو تی ہے۔ مختلف جگا ہوں پے سروے کرنے کے بعد یہ نتیجہ آیا ہے کہ یس دور کے نوجوان ہی نہیں بلکہ ٹینیجرز بھی نت نئے انداز کی ایپلیکیشنز استعمال کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح کا ہاٹ ٹاپک ہویا کوئی ضروری معلومات ہو اب کوئی بھی خبر صرف گھر کے بڑون تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ گھر کے بچّے بھی ہر خبر سے آشنا ہو تے ہیں اور یہ ایک پازیٹو سا ئین ہے۔ کیونکہ بچّوں میں خود اعتمادی بڑھ گئی ہے انکو بوقت معلومات ملتی رہتی ہیں کسی بھی طرح کے ڈسکشن میں بچّے بخوبی اپنی رائے پیش کرنے لگے ہیں اور یہ سب سو شل میڈیا کے بدولت ہے کہ آج کے بچّے ہر طرح کے حالات سے خود اوئیر ہو جاتے ہیں مختلف علاقوں اور شہروں میں بچّے اغوا ہونے کی جو صورتحال ہے یہ ابھی کا سب سے کر نٹ اِشو ہے میڈیا نے اس حوالے سے اتنا اپ ڈیٹ کر دیا ہے کہ بچّے خبردار ہو چکے ہیں اور بلا ضرورت گھروں سے نکلنا چھو ڑ چکے ہیں تو یہ ہے سو شل میڈیا کے ایکشن کا ری ایکشن کہ اب ایک بچّہ بھی سیلف ڈیفنس امپلیمینٹ کر رہا ہے۔
اسی طرح ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے بھی اپنے کام کا تقریباً بو جھ سو شل میڈیا اور ٹیکنا لو جی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ایڈمیشنز آن لائن ہونے لگے ہیں رزلٹس آن لائن اناوْنس کر دئیے جا تے ہیں تمام طالبِعلموں کا بائیو ڈیٹا اور اکیڈمک کوالیفکیشن کا ریکارڈ اب کمپیوٹر میں سیف کیا جا تا ہے یہان تک کہ اسائنمنٹس کی سبمشن بھی آن لائن کی جانے لگی ہیں یو نیورسٹیز اور کا لجوں میں۔اب گیا وہ زمانہ جہاں طالبِ علم اپنے اسائنمنٹس پیپر فائل پے بنا کے اپنے اسا تذہ کو دیا کرتے تھے اب زمانے نے اپنا رخ بدل ڈالا اب ہر طالبِ علم کو( ایمیل اکاوئنٹ) درکار ہے جس کے ذریعے وہ اسائنمینٹس یا پروجیکٹس اپنے اساتذہ کو میل کرتے ہیں اور اساتذہ انکا رسپونس اسٹوڈنٹ بلاگ کے ذریعے دیتے ہیں۔سوشل میڈیا نے حلات بدل ڈالے طور طریقے بدل ڈالے ہر چیز کو مزید آسان سے آسان تر بنا ڈالا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا اْمید کی ایک کِرن ہے سوشل میڈیا نے مختلف پہلووں سے انسان کو فائدے پہنچائے ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ اسی طرح مقبولیت کے ساتھ جاری رہے گا اچھّی اْمیدوں اور کاوشوں کے ساتھ۔

پاکستانی فلمیں اور سینما گھروں کا رجحان - ثناء شیخ


ثناء شیخ
رول نمبر:۵۵
ایم۔اے (پریویس)
میڈیااینڈکمیونیکیشن
آرٹیکل:
پاکستانی فلمیں اور سینما گھروں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان
فلم تمام مواصلات کی تراکیب کی سب سے زیادہ طاقتورقسم ہے ۔جو انسان کی نفسیات پر گہرااثرچھوڑ جاتی ہے اوریہی گہرااثرمعاشرے پراثراندازہوتا ہے چاہے وہ ہالی وڈہو ،بالی وڈیالولی وڈکسی بھی ملک کی فلم انڈسٹری اس ملک کی ثقافت سے پوری دنیاکوروشناس کرواتی ہے اوریہیں سے ان کی ترقی کا پتہ بھی چلتا ہے کہ وہ کس طرح کا کلچرپروموٹ کررہی ہیںیا کرناچاہتی ہیں ۔پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور عروج کی بحث ہمارے ہاں کافی عرصے سے جاری ہے ۔اخبارات ہوںیاٹی وی کے پروگرام ہر جگہ ماہرین اپنی رائے کا اظہار کرتے نظرآتے ہیں 70's60's,50'sکی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کا بامِ عروج کا دورتھا جہاں ایسی فلموں کے نام یادآتے ہیں جو اپنی کہانی ،اداکاری ،موسیقی ،گلوکاری اورہدایت کاری کے حوالے سے ناقابلِ فراموش ہیں جیسے کہ کوئل،نیند،فرنگی،آئینہ،سچائی ،انصاف اورقانون، ہیررانجھا ،امراؤجان ادا،خاموش رہووغیرہ ۔پھرہم نے (1988-2002)کا دوربھی دیکھا جہاں گھرکب آؤگے اورچوڑیاں جیسی فلموں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ایک اندازے کے مطابق 80کی دہائی میں ہمارے ملک میں سینما گھروں کی تعداد1100تھی جوکم ہوکر120رہہ گئی ہے ۔کسی دورمیں پاکستان مین سالانہ 100فلیمیں بڑے پردے کی رونق بنتی تھیں جن کی تعدادکم ہوکرآج چندرہہ گئی ہے۔پاکستانی فلمی سینمانے وہ وقت بھی دیکھاجب ایک بینرکے نیچے دس دس فلمیں چلتیں تھیں4158یکن بدقسمتی سے اورصرف بدقسمتی ہے کہ اب پاکستانی فلم انڈسٹری پچھلی چنددہائیوں سے بدترین زوال کا شکارہے۔جوکہ اب کچھ بہتری کی طرف آتی دکھائی دیتی ہے ۔
دراصل لوگ میعاری اورسستی تفریح چاہتے ہیں ۔غیرمعیاری اورعامیانہ فلموں نے لوگوں کو سینماگھروں سے دورکردیا اوررہی سہی کثرکیبل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی (2002-2009)مشرف کے دورمیں انڈین فلموں کو سینماؤں کی زینت بنا کر لوگوں کو مغلِ اعظم جیسی پرانی اور عشقیہ فلموں کی طرف ایسا دوڑایا گیا کہ آخرکارسینماہالزآہستہ آہستہ خالی ہونے لگے۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیانے ایسے قدم جمائے کہ سینماگھرویران ہوگئے ۔گھربیٹھے لوگ ڈاؤن لوڈنگ اورآن لائن فلمیں دیکھنے لگے ۔اب اگرفلمی صنعت پر نظرڈالی جائے توبہت کوششوں کے بعدپاکستانی فلم انڈسٹری ایک بارپھر کامیابی کے سفرپر چل پڑی ہے۔یہی فلمسازی کو بہترین وقت ہے یہ دورنوجوانوں کا دورہے جواچھی سوچ کے ساتھ فلمیں بنارہے ہیں ۔ہمارے فنکاروں میں بھرپورصلاحتیں موجودہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلمیں عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ان کی کامیابی نے دنیابھرمیں فلم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اورگذشتہ چندماہ کے دوران اس سلسلے میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔بھارت سمیت دنیا بھرمیں موجودفلم کے شعبے سے وابستہ افراد نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کو اہم قراردیااوراس کی تعریف بھی کی۔
اگرحیدرآباداورکراچی جیسے سندھ کے بڑے شہروں کی بات کی جائے جہاں پاکستانی فلمیں اورلوگوں کا سینما گھروں کی طرف بڑھتاہوارجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری بتدریج ترقی کی جانب گامزن ہے جیسے کہ 70اور80کی دہائی میں تھی۔کراچی میں CinemexاورNueplexجیسے لاتعدادسینماگھرموجودہیں جبکہ حیدرآبادمیں سینما گھروں کی تعدادصرف تین (3)ہیں جن میں سینی موش ،شہاب اوربمبینو شامل ہیں۔بھارتی فلموں سے لطف اندوزہونے والی قوم آج پاکستانی فلمیں دیکھنے کو زیادہ فوقیت دے رہی ہے حال میں ریلیزہونے والی بِن روئے ،کراچی سے لاہور،نامعلوم افراد،جوانی پھرنہیں آنی اوررا نگ نمبرجیسی پاکستانی فلموں نے فلم انڈسٹری میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔پاکستانی سینما گھربھی پاکستان فلموں کو پروموٹ کرنے میں اہم کرداراداکررہے ہیں ۔خداکے لئے،بول اورواریہ تین فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان میں ریکارڈبزنس کیا بلکہ ان فلموں کو انڈیااوردنیابھرمیں بھی بہت سراہا گیا ۔جس تیزی سے پاکستان میں فلمیں بن رہی ہیں لگتا ہے وہ وقت دورنہیں جب پاکستانی فلمی شائقین کا رجحان پھرسے اپنے ملک میں بننے والی فلموں کی طرف ہوجائے گا۔لوگ چاہے کسی بھی ملک یا طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں فارغ اوقات میں لطف اندوزہونے کیلئے سینماگھروں کی طرف رُخ کرتے ہیں اس لئے ملک کے تمام بڑے شہروں میں نئے اور جدیدٹیکنالوجی پر مبنی سینما گھروں کاقیام ہوناچاہئیے جویقیناًشائقین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کافی حدتک مددگارثابت ہونگے ۔

Children park Naushahro Froze by Ali Raza


Feature
M.a previous Roll no 12
aliraza
Children park  Naushahro Froze by Ali Raza


As it is said that beauty is in the eyes of beholder, and yes over here in Sindh if we have a glance so it is a completely true. If we have a look the place which we are living around us there are so many attractive things here which make people compel to get attract, over here there are so many different sort of things where people can get relax,enjoy,get fresh and spending good time there. The parks are always seems to be the place where we go when we want to get relax In Naushahro Froze there are also different place where people can get to gather with family,friends,colleague and with others.Naushahro Froze is away 193 from Hyderabad over here is a park the name of this park is Children park, by name it is children park but here the different categories of people come like children,teen,youngsters,old, families etc,they just come by relax and forget the pain and sorrow, every beauty things are famous by someone or something so yes this place is also famous by its full of having greeneries,trees,there is slides zoo for children,benchs for elders for sitting over there. Mostly people come with their families for them it is a best place because over here is a natural air and soul, the most aged people come for the relaxation.
Over here the large number of students, kids come for getting entertainment and meet with their friends, over here the every category of people find their own favorite thing likewise, kids they just love watch zoo just, Kids touch their favorite animals like elephant and try to make them eat fruits’ all kids enjoy that close one moment get get very much happy, they get happy when they see their favorite animal in front of them like lion kids mostly like peacocks elephant ducks and others, rest of come just for the slides when they just get slides  in water they just get full of enjoyment and screaming with full of enthusiastic, rest of children bring the bats and boll with them for playing the cricket and also the football and other different sort of games. If we are talking about the women they just come with their children and they just enjoy too with that type of atmosphere.Mostely people come at the timing of evening and night.
If we are talking about any events eid touhaar here we see the crowed the thing which catch the people towards them is the cleanness over here the cleaness is the main thing and also the atmosphere here in occasions and in holidays and in picnic people do over here they just bring food fruits and other things for eating and for enjoyment people just not around the area but all over the city of people they just come and spend a lot of time over here, Another thing which attract to the people is the beauty of the trees and the flowers, here are the different sort of trees and the way of cutting of the trees are simple amazing for the first look people get impress, the red rose are simply the sign of love when we have to look around we just find them and get naturally simple on everyone’s face. The pond of waters is also the main thing for beauty of park. The police are the charged with the protecting of the park and the guards here is a completely safety from the side of security..we are enjoying these type of parks where we can get every sort of relaxation and most important thing that kids mostly enjoy a lot that is big thing for us the visitors said.


عبدالغفار وڌو شهداد ڪوٽ شهر

شهداد ڪوٽ شهر جي حيثيت ڪيئن اختيار ڪئي
عبدالغفار وڌو
ڪلاس: ايم.اي.پريويس
رول نمبر: 02

                    الله پاڪ جي خلقيل هن ڪائنات ۾ ڪيترائي حصا سهڻا ۽ من کي موهيندڙ آهن، پر انسان جي سوچ ۽ فطرت کانپوءِ اهي ويتر ڌيان جو مرڪز بڻجن ٿا، هن سڄي دنيا ۾ هر ملڪ چاهي ان جو ننڍي کان ننڍو شهر به پنهنجي الڳ حيثيت طور سڃاتو ويندو آهي، ان ۾ مالڪ جي طرفان اهڙيون خاص ڳالهيون رکيل هونديون آهن، جيڪي ان کي از خود هڪ خوبصورتي بخشينديون آهن، اهڙن شهرن مان شهدادڪوٽ به هڪ آهي.
                    قمبر شهدادڪوٽ ضلعي جو مشهور ۽ وڏي کان وڏو تعلقو شهدادڪوٽ آهي، هن تعلقي اصل زمينون ۽ ڪاروبار سڄي شهر ۽ ٻهراڙي وارن علائقن ۾ کهاوڙ، هندو ۽ سيلرن جا هئا، جنهن ۾ اهم ڪردار ۽ سخي قوم کهاوڙ هئي، هنن تمام گهڻي تعداد پنهنجون زمينون هتان جي ماڻهن جي حوالي ڪيون ان سان گڏ حڪومت کي به انهن ڪافي زمينون ڏنيون جنهن ۾ هنن لائيبريري، قبرستان، پرائيويٽ اسڪول، گئيس آفيس ۽ ڪرڪيٽ اسٽيڊيم ان کانسواءِ ٻيون ڪيتريون ئي جڳهيون سرڪاري توڙي غير سرڪاري ماڻهن کي ورهاست طور ڏنيون، ان کانپوءِ هتان جي حڪومت ۽ هتان جي ماڻهن جو خيال هو ته جنهن انسان هن شهر لاءِ هيترو ڪيو آهي، ڇو نه هي شهر هن وقت جڙي هڪ تعلقي جي شڪل اختيار ڪري ورتي آهي، ڇو هن تي ان شخص جو نالو رکيو وڃي جنهن هن ويران جڳهه تي آبادي جي شڪل ڏني پوءِ ان شخص جي نالي سان هي شهر سڃاپڻ لڳو، اصل ۾ ان شخص جو نالو شهداد خان هو، پر ان کي شهداد ڪوٽ جي نالي سان رکيو ويو، يعني شهدادڪوٽ جو محل يا ڪوٽ چيو وڃي ٿو. هي اصل کهاوڙ قبيلي سان واسطو رکندڙ شخص هو، شهدادڪوٽ شهر ٿيڻ ۾ ٻن قومن جو اهم ڪردار آهي، هڪ سيلرا ۽ ٻيو کهاوڙ، هن شهر کي اڳتي وٺي اچڻ ۾ تمام گهڻو هٿ سيلرن جو به آهي، جنهن ۾ هنن گهڻو ئي ڪجهه ڪيو، جيئن شهدادڪوٽ ۾ ماڻهن کي ڪيترائي پلاٽ ۽ آبادي زمينون ڏئي ماڻهن کي آباد ٿيڻ لاءِ زمينون وڪڻي ڏنيون جنهن جي نتيجي ۾ ماڻهو ڳوٺن مان لڏپلاڻ ڪري شهرن جي طرف وڌڻ شروع ڪيو، ۽ آهستي آهستي هڪ سٺي وڏي تعلقي جي حيثيت اختيار ڪري ورتي، چيو وڃي ٿو ته جيڪڏهن سيلرا ۽ پنهنجا پلاٽ ماڻهن کي حڪومت کي نه ڏين ها ته شايد اڄ شهدادڪوٽ نه هجي ها، ڇو ته هي شهر ٺهڻ کان اڳ هتي هندو، سيلرا ۽ کهاوڙ رهندا هئا، جنهن ۾ سڄي جوءِ تر باقي پيل پلاٽ کهاوڙ ۽ سيلرن جا هئا، پلاٽ ڏيڻ کانپوءِ آبادي جي واڌ کانپوءِ هن کي نالو گڏي ڪري سيلرا شهدادڪوٽ جي نالي سان سڏيو ويو هن وقت به هن جو اصل نالو سيلرا شهدادڪوٽ آهي، هي شهر سنڌ جي آخري حد يعني بلوچستان صوبي جي سرحد سان تقريبن لڳ آهي، هن جي اتر اولهه ۾ 51 ڪلوميٽرن جي مفاصلي تي لاڙڪاڻو شهر آهي، جيڪو هن وقت هڪ ڊويزن جي حيثيت سان سڃاتو وڃي ٿو ۽ 32 ڪلوميٽر اولهه واري طرف قمبر شهر آهي، جيڪو هن وقت ضلعي جي حيثيت رکي ٿو، هن وقت شهدادڪوٽ جي ڪل آبادي، تقريبن ساڍا پنج لک آهي، هتي سڀ کان پهريون وڻج واپا جي شروعات هندن ڪئي، ان کانپوءِ آهستي آهستي ٻيون قومون آباد ٿينديون ويون، پوءِ انهن پنهنجا الڳ الڳ ڌنڌا ۽ واپار شروع ڪيا، هن وقت شهدادڪوٽ واپار جي لحاظ کان سنڌ ۾ اهم ڪردار ادا ڪري رهيو آهي، جنهن ۾ هتي ڪڻڪ، ساري، جوئر، تر، سرنهن، چوپايو مال، جڳهين جو ۽ ان کانسواءِ ٻيا ڪيترائي واپار پڻ ڪيا ويندا آهن، ان کانسواءِ هتي ڪڻڪ ۽ سارين جا تمام وڏا ڪارخانا آهن، هتي لڳ ڀڳ 120 کان به وڌيڪ سيلريون آهن، جيڪو پاڪستان نه پر سڄي ايشيا ۾ مشهور آهن، 1974ع واري ڏهاڪي ۾ چائنا ذوالفقار علي ڀٽو کي ڪپڙا ٺاهڻ جي هڪ مشين طوفي طور ڏني هئي، اها مشين ڀٽي صاحب شهدادڪوٽ ۾ لڳرائي هئي، جنهن ۾ 4500 مزدور ڪم ڪندا هئا، هي مل تمام گهڻي مشهور وئي، هن ۾ ٺهندڙ ڪپڙو سنڌ نه پر سڄي پاڪستان جا ماڻهو ان ڪپڙي کي تمام گهڻو پسند ڪندا هئا، هن مل ۾ (جهلڪ) نالي مشهور لون جو ڪپڙو به ٺاهيو ويندو هو، جيڪي سڄي پاڪستان جا ماڻهو وڏي شوق سان خريد ڪندا هئا، هن مل جي لڳڻ کانپوءِ ئي شهدادڪوٽ ۾ ٻيون به قومون اچڻ شروع ٿيون، هن فيڪٽري ۾ مزدور کان 8 گهنٽا ڪم ورتو ويندو هو، چڱو عرصو هي مل تمام سٺي پيماني تي نالي ڪمايو، پاڪستان نه پر سڄي ايشيا جي اندر. آخرڪار مل کي 2007ع ۾ ڪجهه سازشن تحت مشرف جي دور ۾ بند ڪيو ويو، هن جي بند ٿيڻ سان ڪجهه ماڻهن کي فائدو ته ضرور پيو، پر انهن ظالمن 4500 مزدورن جي گهرن جي ٻرندڙ چلهن کي وسائي ڇڏيو.
                    شهدادڪوٽ بلوچستان سان لڳ هجڻ ڪري هتي بلوچ پڻ رهندا آهن، جنهن ۾ هنن جو ڪجهه ذاتيون هي آهن، مگسي، بروهي، جروار، بوجاڻي، جاگيراڻي، چانڊيو، کوسو ۽ تمام گهٽ تعداد ۾ بلوچن جا ٻيا پاڙا به رهندا آهن، هي ته هئا بلوچ پر هتي اڪثر سنڌين جون قومون جام رهن ٿيون، جنهن ۾ سنڌي شيخ ، ابڙو، وڌو، ڀٽي، چنو، ميمڻ، ٻرڙو ۽ منگي وغيره ٻيون ڪيتريون ئي سنڌي ذاتيون رهن ٿيون، هتي گهڻي کان گهڻيون ٻوليون پنج ڳالهايون وڃن ٿيون، جنهن ۾ سنڌي، بروهي، بلوچي، سرائيڪي ۽ اردو ٻولي پڻ ڳالهائي وڃي ٿي، هن وقت شهدادڪوٽ جو ايم.پي.اي مير نادر خان مگسي آهي، مگسي قوم اصل ۾ جهل مگسي بلوچستان جي آهي، پر اسان وٽ ايم.پي.اي نادر خان مگسي جي هجڻ جي ڪري اتان جا ماڻهو هزارن جي تعداد ۾ لڏپلاڻ ڪري شهدادڪوٽ اچي ويٺا.
                    2009ع ۽ 2010ع واري ٻوڏ ۾ شهدادڪوٽ شهر ته نه ٻڏيو پر ان جا ٻاهريان زرعي علائقا ٻڏي ويا ۽ هن ٻنهي سالن ۾ تمام گهڻو زرعي ۽ مالي نقصان رسيو، جنهن جي نتيجي ۾ هتان جي آبادگارن، ڪارخانا مالڪن ۽ ڀلاوڻن کي تمام گهڻي ڏکيائين جو منهن ڏسڻو پيو، شهدادڪوٽ تمام گهڻو گرم شهر آهي، هتي اونهاري ۾ گرمي 53 کان 54 سينٽي گريڊ هوندي آهي، ڊسمبر 2005ع تي شهدادڪوٽ ۽ قمبر کي لاڙڪاڻي کان الڳ ڪري هڪ الڳ ضلعي جي حيثيت ڏني وئي، جنهن ۾ لڳ ڀڳ ست تعلقه جوڙيا ويا جنهن ۾ قمبر، شهدادڪوٽ، وارهه، ميروخان، نصيرآباد، قبوسعيد خان ۽ سجاول اچي وڃن ٿا ۽ 2015ع جي آبادي جو جائزو وٺڻ سان خبر پئي ته ضلع قمبر شهدادڪوٽ جي ڪل آبادي 1.845 ملين آهي.




Hafiz Munir Ahmed Khan Profile by Munium Ali Khan

picture of personality is needed
A Profile by Munium Ali Khan
Class: M.A (Previous)
Roll # 2K16-MMC-43
Semester: 2nd
Dr. Hafiz Munir Ahmed Khan
When I was nearly 15 years old and was a school student, I first time saw a startlingly good-looking person, who was standing near a beautiful mosque, smiling, embracing and meeting other people outside the mosque. I did not know you was he, but I could feel a spiritual relationship with him. I am not talking about a person who has curved lines on his face, aged between 70 or 80; of course not, I am talking about a person who has achieved many successes in his life in his very young age which is a very rare thing for other people to get.
Today, I am proudly going to introduce you Dr. Hafiz Munir Ahmed Khan. He is the grandson of Late Hazrat Dr. Gulam Mustafa (RA) who was an authentic Islamic and spiritual scholar, linguistic, educationist and the former Head of Department of Urdu at Sindh University and a companion of Allama I. I. Qazi (Founder of Sindh University).
Dr. Hafiz Munir Ahmed khan hail from a noble and honorable family, he was born in Hyderabad, Sindh in 10th October 1972. He has a remarkable memory and ability to learn and understand things quickly since his childhood. By virtue of this he had been Hafiz –ul- Quran in his early childhood, after completing HSC he did his M.A in Islamic Culture in1992 and M.A in Arabic in 1995 from University of Sindh with 1st classes respectively and completed his Ph.D. in Islamic Culture subsequently in 1998.  He is not only a great scholar and researcher, but is also a valuable religious mentor and teacher, he is now a chairperson of Department of Comparative Religion and Islamic Culture at Sindh University and also the Head of an authentic Islamic educational institution named Al- Mustafa Trust situated near Abdullah Sports City, Hyderabad, Sindh. He is also a member of Senate and Academic Council of Sindh University.

He has served as a Lecturer in Department of Arabic at Sindh University. He has also been lecturer in miscellaneous institutions such as, Allama Iqbal Open University, Hyderabad Campus and Institute of Information and Technology at Sindh University. He has attended many international, national and local seminars and conferences as a notable guest.

He is an unparalleled younger replica of his grandfather. I has always noticed this thing that when he meets someone and shakes hands, he always smiles which makes feel happy others. He is also a great humanitarian and philanthropist, he likes to help needy people quietly, many poor and orphan children are being taught in his own educational institute. He has also written many books and research articles on Islam like ‘Majma-ul-Bahrain’, ‘the Religious Activities of Hazrat Mujaddid Alif Sani’ and so on.
In short, I admit to have been failed to find words which can define his great personality, I just would like to say that he is worthy of great tribute for his service to humanity and education, he is one of those people who do not show who they really are, but the reality is that they are the hidden ocean of knowledge, wisdom, dignity and fortitude, lighting deviated people to right path, having the determination to serve mankind till the last breath of life.

حيدرآباد جا ادبي ڪتاب گھر ۽ انهن جا خريدار :رشيد احمد نظاماڻي

 Rasheed Nizamani    
فيچر:
حيدرآباد جا ادبي ڪتاب گھر ۽ انهن جا خريدار
لکندڙ:رشيد احمد نظاماڻي
ڪلاس:ايم.اي پريويس
رول نمبر:49
گڏيل هندوستان جي گھڻ رُخي شخصيت ابوُالڪلام آزاد پنهنجي جڳ مشهور تصنيف “غبارِ خاطر” ۾ هڪ هنڌ لکيو آهي ته هن جي لاءِ زندگي جي سڀ کان وڏي عياشي اها آهي ته سياري جي تيز ٿڌي رات ۾ باهه جو مچ ٻرندو هجي ۽ هو ڪتاب پڙهندو هجي يا ڪجهه لکندو هجي.سنڌ جي ڪنهن شاعر ڪيڏو نه خُوب چيو آهي ته:
ڪتابن سان دل منهنجي ، ڪُتب خانا وطن منهنجو،
ڪتابن ۾ ٿيندس دفن مان،ورق ٿيندا ڪفن منهنجو.
ڪتابن جي عشق ۾ ورتل اهڙن ماڻهن کي من ۾ هميشه اها تات هوندي آهي ته هو نوان ۽ پراڻا،مطلب ته هر اهو ڪتاب پڙهن جيڪو انهن جو پڙهيل نه هجي.ان ڪري هو هميشه اهڙين جاين جي تلاش ۾ رهندا آهن جتي انهن کي ڪتاب ملي سگھن.
اهڙن پڙهندڙن مان هر ڪنهن جي پسند  مخلتلف هوندي آهي،ڪو ناول ۽ ڪهاڻيون پسند ڪري ٿو ته ڪوئي شاعري.ڪو زندگي جي رمزن ۾ اُلجهڻ لاءِ فلسفو پڙهي ٿو ته ڪوئي ماضي جي ڳولها ۾ تاريخ پڙهڻ پسند ڪري ٿو.ڪي پاڻ سنوارڻ لاءِ دنيا جي عظيم شخصيتن جو جيون ڪٿائون پڙهن ٿا ته ڪي وري دنيا کي گھمڻ لاءِ سفر نامن جو سهارو وٺن ٿا.
ڪتابن سان چاه رکندڙ اهڙا ماڻهو جن کي حيدرآباد ويجهو پوي ٿو انهن کي ٻڌائيندو هلان ته حيدرآباد جو علائقو حيدر چوڪ،ادبي ڪتاب گھرن جو مرڪز آهي جتي ادبي ڪتابن جي 8 دڪانن کان علاوه ٽي ريڙهي وارا به آهن جيڪي ادبي ڪتاب وڪرو ڪن ٿا.
مون جڏهن پنهنجي اسائنمينٽ خاطر انهن سان ملاقات ڪئي ۽ انهن کان انهن جا مسئلا،پڙهندڙن جي پسند ۽ ڪتابن جي وڪري وغيره بابت ڳالهه ٻولهه ڪئي ته تمام دلچسپ معلومات ملي.سڀ کان پهريان آئون ريڙهي تي ڪتاب وڪرو ڪندڙن سان مليس جيڪي حيدر چوڪ کان گول بلدنگ طرف ويندڙ روڊ جي موڙ ۾ ويٺل آهن.اتي ڪتاب وڪرو ڪندڙ جنهن پهرين شخص سان ڳالهه ٿي ته ان ٻڌايو ته هو موسيٰ پبليڪيشن جو ڌڻي آهي جنهن جا 28 ڪتاب شايع ٿي چڪا آهن هن پنهنجو نالو حبدار گاڏهي ٻڌايو.هن ٻڌايو ته هو 20 سالن کان وٺي حيدر چوڪ تي ڪتاب وڪرو ڪري رهيو آهي پر ڪتابن جي وڪري ۽ پبليڪيشن مان ڪجهه گھڻو پلئـه نه پيو آهي اهو  ئي سبب آهي جو هو اڃا تائين هڪ ريڙهي کان دڪان تائين نه پهچي سگھيو آهي.هن چيو ته جيڪڏهن گورنمينٽ تعاون ڪري ته اسان جي معاشي حالت ڪجهه بهتر ٿي وڃي.
اتان پوءِ ويجهو ئي حيدر چوڪ کان اولڊ ڪيمپس ويندڙ روڊ تي ٺهيل هڪ مارڪيٽ جي اندر ڪويتا پبليڪيشن جو ننڍو ڪتاب گھر آهي، جنهن جو مالڪ موهن مدهوش آهي جيڪو 16 سالن کان وٺي هي پبليڪيشن هلائي رهيو آهي. موهن مدهوش ٻڌايو ته اڳ جي ڀيٽ ۾ هاڻ وڪرو گھٽجي ويو آهي.باقي جينيئن ريڊرس (اڳوڻن پڙهندڙن) اڃا پڙهڻ ڪون ڇڏيو آهي.هن چيو ته جيترو به وڪرو ٿئي ٿو ان ۾ سفر ناما خاص طور الطاف شيخ جا سفر ناما گھڻو وڪرو ٿين ٿا،ان کان پوءِ ناول ۽ پوءِ آتم ڪٿا جا ڪتاب وڪرو ٿين ٿا.هن وڌيڪ چيو ته اسان سڀني،خاص طور نوجوانن کي ادبي ڪتاب ضرور پڙهڻ گھرجن ڇاڪاڻ ته ان کانسواءِ اسان مضبوط نٿا ٿي سگھون ۽ نوان پڙهندڙ پيدا ڪرڻ لاءِ ٻاراڻي ادب تي ڪم ٿيڻ گھرجي جيڪو نه ٿي رهيو آهي.موهن مدهوش وٽ الطاف ملڪاڻي به ويٺل هو جنهن 35 ڪتابن جا ترجما ڪيا آهن ۽ پنج ڪتابن جو مصنف آهي.ڪتابن جو وڪرو گھٽ ٿيڻ تي هن پنهنجي راءِ ڏيندي چيو ته اڳ ۾ سياسي سماجي تنظيمن جا اسٽڊي سرڪل هوندا هئا جتي ڪارڪنن کي ڪتاب پڙهايا ويندا هئا پر هاڻ نظرياتي سياست گھٽ ٿيڻ جي ڪري ڪتاب پڙهڻ جو رُجحان به گھٽجي ويو آهي.
اتان کان پوءِ آئون ڀٽائي بُڪ هائوس تي ويس جيڪو حيدر چوڪ جي اوڀر ڏانهن ويندڙ روڊ تي واقع آهي. هي هڪ وڏو ڪتاب گھر آهي ۽ ٻن دڪانن تي مشتمل آهي جنهن جو مالڪ اُردو ڳالهائيندڙ ذوالفقار علي آهي.هن وٽ سنڌي ۽ اردو ٻنهي ٻولين جا ڪتاب پيل آهن.هن ٻڌايو ته مجموعي طور وڪرو گھٽ ٿي ويو آهي پر منهنجو وڪرو سٺو ٿئي.هن چيو ته اسان وٽ روشني پبليڪيشن جا ڪتاب گھڻا وڪرو ٿين ٿا جنهن جا ست کان اٺ سئو ٽائيٽل آهن.جڏهن مون هن کان ٻاراڻي ادب جي صورتحال معلوم ڪئي ته هن ٻڌايو ته اردو ميگزين ان حوالي سان سٺو ڪم ڪن پيا جيڪي خاص طور ٻارن جا رسالا هلائين پيا جيئن نونهال ۽ نٽ گھٽ وغيره.هن چيو ته اسان وٽ ناول گھڻو وڪرو ٿئي ٿو.
ان کانپوءِ شاه لطيف ڪتاب گھر وڃڻ ٿيو جيڪو روشني ڪتاب گھر طور به سڃاتو وڃي ٿو.هي ڪتاب گھر حيدرچوڪ جي اتر طرف گلي ۾ واپڊا يونين هال وٽ آهي. هي به هڪ وڏو ڪتاب گھر آهي جيڪو ٻين ڪتاب گھرن کي هو سيل تي به ڪتاب ڏين ٿا.هتي ويٺل علي اظهار جو چوڻ هو ته هاڻ نوجوان ناول جي جڳهه تي فلم کي ۽ ننڍا ٻار آکاڻين جي جڳهه تي ڪارٽون ڏسڻ کي ترجيح ڏين ٿا.شاه لطيف ڪتاب گھر جي سامهون ئي پهرين فلور تي سنڌيڪا وارن جي فرينچائز آهي جنهن کي غلام عباس ابڙو هلائي ٿو.سنڌيڪا سنڌ جي وڏين پبليڪيشنز مان هڪ آهي جنهن جو مالڪ نور احمد ميمڻ آهي.ٻين ڪتاب گھرن جي ابتڙ هتي فقط سنڌيڪا جا ڇپيل ڪتاب ملن ٿا.سنڌيڪا جا 400 کان مٿي ڪتاب ڇپيا ويا آهن.هن ٻڌايو ته اسان جا اسلامي،سيلف ڊولپمينٽ ۽ تاريخي موضوع تي ڪتاب گھڻا وڪامجن ٿا.
حيدر چوڪ تي ئي واپڊا يونيين هال جي ويجهو سِنڌيا پبليڪشين جو ادارو آهي جنهن کي شروع ٿيندي صرف ڏيڊ سال ٿيو آهي ۽ ان جا هن وقت تائين 27 ڪتاب ڇپجي چڪا آهن.سِنڌيا پبليڪيشن جي ڪتاب گھر تي ويٺل رشيد احمد هاليپوٽو،جيڪو اتي اڪائونٽنگ مينيجر آهي،ٻڌايو ته اسان جي اداري ۾ سفارشي ڪلچر نه آهي.اسان وٽ مواد ڪنهن جو به شايع ٿي سگھي ٿو بشرطيڪه اسان جو سليڪشن بورڊ ان کي منظور ڪري ۽ اسان ليکڪ کي وس آهر رائلٽي به ڏيندا آهيون.هن ٻڌايو ته اسان پنهنجا ڪتاب 50 سيڪڙو رعايت سان ڏيندا آهيون.هي ادارو سِنڌيا پبليڪيشن جي نالي سان هڪ ماهوار رسالو به هلائي ٿو.
ان  کانپوءِ ڪتاب گھرن جي پُڇاءَ ڪندي آئون حيدر چوڪ وٽ رابِعه اسڪوائر پهتس جتي اندر مارڪيٽ ۾ ٻه ڪتاب گھر آهن،هڪ سنڌي ساهت گھر ۽ ٻيو فڪشن هائوس.سنڌي ساهت گهر، جيڪا 1973 کان ڪم ڪري پئي جو مالڪ ناز سنائي آهي جيڪو هڪ ليکڪ آهي ۽ کيس جي.ايم سيد پٽ وانگر سانڍيو.ناز سنائي جو چوڻ هو ته اڳ ۾ سنڌي ميڊيم اسڪول به هوندا هئا ته ڪتاب پڙهندڙ به هوندا هئا ۽ ڪتاب ڇپبا گھٽ هئا پڙهندڙ وڌيڪ هئا پر هاڻ ڇپجن گھڻا ٿا پڙهجن گھٽ ٿا،لکڻ جو معيار نه رهيو آهي.سنڌي ادب ۾ ٻاراڻو ادب نه آهي ۽ ڪيترائي ماڻهو چاهين ٿا ته انهن جا ٻار سنڌي ڪتاب پڙهڻ لاءِ تياري ڪن پر گھڻي ڳولها باوجود انهن کي سنڌي ادب جو ٻاراڻو ڪتاب  نٿو ملي.جڏهن اسان جي ٻولي جو نئون پڙهندڙ ئي پيدا نه ٿيندو ته اڳتي هلي اسان جي ٻولي سان جيڪو حشر ٿيندو ان جو اندازو ڪري سگھجي ٿو.سنڌي ساهت گھر جي پاسي ۾ ئي فڪشن هائوس لاهور جو پبليڪيشن ادارو آهي جيڪو 1991ع کان ڪم ڪري پيو، هن جو مالڪ ظهور احمد خان آهي. هن اداري روسي،فرانسيسي،جرمن ٻولين سميت دنيا جو مشهور ادب اردو ۾ ترجمو ڪيو آهي.هن اداري 700 کان وڌيڪ ڪتاب ڇپيا آهن جنهن ۾ نه رڳو اردو ۽ انگريزي پر سنڌي ڪتاب به شامل آهن.هن اداري پاڪستان جي مشهور تاريخدان مبارڪ سان گڏ ڪم ڪندي مخلتف موضوعن تي سندس 20 ڪتاب ڇاپيا آهن. هن جي هڪ سب آفيس ڪراچي ۽ ٻي حيدرآباد ۾ حيدر چوڪ ويجهو
رابِعه اسڪوائر ۾ آهي جتي پڙهندڙن کي تقريبن هر موضوع تي ڪتاب ملي وڃن ٿا.

سڀ کان آخر ۾ سنڌي ادبي بورڊ جي ڪتاب گھر تي ويس جيڪو تلڪ چاڙهي تي موجود آهي.هي هڪ سرڪاري ادارو آهي،هتي ڪتابن کي مخلتف موضوعن جي حوالي سان الڳ ڪري رکيو ويو هو جنهن ڪري ڪتابن جي چونڊ آساني سان ڪري سگھجي ٿي.اداري جي سيل اسسٽنٽ بشير احمد عمراڻي ٻڌايو ته سنڌي ادبي بورڊ ٻاراڻي ادب لاءِ تقريبن گذريل 50 سالن کان ماهوار گُل ڦُل رسالو هلائي پيو ان کان علاوه عورتن لاءِ 1990ع کان وٺي ماهوار سرتيون رسالو هلايو وڃي پيو.